کورونا نے بچیوں کو جسم فروشی میں دھکیلا
کورونا وبا کے دوران اسکول بند ہونے کے بعد پچھلے سات مہینے میں لڑکیوں کی اب گنتی یاد نہیں ہے ۔ان کے ساتھ کتنے مرد سوئے ہیں اور ان میں سے کتنوں نے کنڈوم کا استمال کیا لیکن انہیں یہ ضرور یا د ہے ساتھ سونے کے عوض جب انہوں نے پیسہ مانگے تو انہیں کئی بار محض ایک ڈالر ملا ۔تو کبھی انہیں پیٹا گیا یہ بچیاں وبا کے سبب خاندان کا روزی چھن جانے سے بھائی بہنوں کا پیٹ بھرنے کے لئے اس دلدل میں اترنے کو مجبور ہوئیں کینیا کی راجدھانی نروبی کی ایک عمارت نے اپنے چھوٹے سے کمرے کے بستر پر بیٹھی ان لڑکیوں کے لئے کوروناانفیکشن اتنا بڑا ڈر نہیں ہے جتنا بھوک سے سب سے بڑا خطرہ ہے ۔کمرے میں بیٹھی 16-17-18سال کی لڑکیوں میں سب سے چھوٹی کہتی ہے آج کل اگر آپ کو 5ڈالر کمانے کو بھی مل جائے تو وہ سونے کے برابر ہے تینوں دوست اپنے کمرے کا کرایہ20ڈالرآپس میں شئیر کرکے دیتی ہیں ۔اس وبا نے مزدوروں کی امیدوں پرپانی پھیر دیا ہے ۔2000کے بعد دنیا پہلی مرتبہ دنیا بھر میں بچہ مزدوری میں اضافہ ہواہے اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے لاکھوں کی تعداد میں بچے خطرے والے کاموں میں جھونک دئیے جائیں گے ۔اور اب اسکولوں کے بند ہونے کے سبب حالت اور بگڑے گی ۔ایک سابق جسم فروشہ ملازم میری مگیر نگہنہ نے بتایا کہ اس کے پرانے راستے پر چلنے والی لڑکیوں کو بچانے کے لئے نائٹ نرس واچ نے ایک مہم چلائی ہے کینیا میں مارچ سے اسکول بند ہونے سے نیروبی اور آس پاس کے علاقوں سے قریب ایک ہزار اسکول کے طالبات جنس فروش ورکر بن گئی ہیں ۔ان میں سے زیادہ تر ماں باپ کے گھر کا خرچ چلانے میں مدد کر رہی ہیں یہ سب سے بری بات ہے یہ لوگ ایک مقبول ڈانس بک کے ساتھ پہلے کام کرتی تھیں اور پارٹ تائم کے لئے انہیںپیسہ بھی ملتے تھے ۔لیکن لاک ڈاو¿ ن کی وجہ سے نیروبی کی سڑکیں کھالی ہو گئیں اور ان کی ڈانس بار میں آمدنی بند ہو گئی ۔بہت سے لڑکیاں اس کمائی سے کچھ پیسہ اپنی ماں کو بھیجتی تھیں جس وجہ سے اس کے بھائی بہنوں کو کھانا کھلا پاتی ہیں بہرحال کورونا کی مار سے ساری دنیا متاثر ہے ۔یہ مسئلہ صرف کینیا کا ہی نہیں بلکہ دوسرے دیشوں میں بھی ہے ۔یہ تو ہمیں صرف نیروبی کی حالت پتہ چلی ہے ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں