شراب کے ٹھیکے کھل سکتے ہیں تو مذہبی مقامات کیوں نہیں؟

ہندوستان کی خوبصورتی میں خوبی ہے کہ یہاں الگ الگ مذاہب اور برادریاں ہونے کے باوجود سب آپسی بھائی چارے سے رہتے ہیں۔ مذہبی مقامات سے جب آرتی ، اذان، گربانی، بائبل کی آوازیں آتی ہیں تو ایشور میں عقیدت رکھنے والوں کا حوصلہ مضبوط ہوتا ہے۔ کورونا وبا کے دوران لوگوں کا حوصلہ گررہا ہے۔ کیونکہ تمام مذہبی عبادت گاہیں بند ہیں۔ اس لئے مذہبی پیشواؤں کا کہنا ہے کہ شراب کے ٹھیکے کھلے ہیں اور ان پر بھیڑ دیکھ کر مذہب میں عقیدت رکھنے والے مذہبی مقامات مندروں ، گردواروں، مساجد اور چرچ کو بند دیکھ کر مایوس ہیں۔ ان پیشواؤں کا کہنا ہے کہ پرارتھنا اور دعاؤں میں اثر ہوتا ہے اور پرارتھنا اور دعائیں ہوں گی تو دیش میں آئی مشکل گھڑی کے بادل بھارت اور دنیا سے ہٹیں گے۔ اکھل بھارتیہ سنت سمیتی اور کالکامندر کے مہنت سریندر ناتھ اودھوت مہاراج کہتے ہیں کہ دھارمک مقامات میں آکر پوجا ارچنا سے شخص میں ایک ایشوریے طاقت کا احساس پیدا ہوتا ہے اور مثبت سوچ بڑھتی ہے۔ ایسے ہی دلی سکھ گردوارہ پربندھک کمیٹی کے منجندر سنگھ سرسا کا خیال ہے کہ مختلف مذاہب کے لوگوں کو اپنی عبادت گاہوں میں آنے سے طاقت اور حوصلہ ملتا ہے اورایسے ہی فتح پوری مسجد کے مفتی مکرم کہتے ہیں کہ کچھ ضروری شرطوں کے ساتھ مذہبی عبادت گاہیں کھلنی 
چاہئے۔ ہم بھی ان سے متفق ہیں ۔ جب شراب کے ٹھیکے کھل سکتے ہیں تو مذہبی مقامات کیوں نہیں؟  (انل نریندر)ر


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!