دم گھٹا ۔۔جوجہا ںتھا وہیں گر گیا

آندھرا پردیش کے وینکٹ پورم گاو ¿ ں میں قائم ایل جی پولیور کے کیمیکل کارخانے سے گیس اخراج جتنا تشویش ناک ہے اس سے کہیں زیادہ تکلیف دہ ہے گیس اخراج سے لوگوں کی موت نے ایک بار پھر بھوپال گیس ٹریجڈی کی یاد تازہ کر دی ہے بدھوار کو دیررات کارخانے سے گیس کا اخراج شروع ہوا اس وقت جو لوگ کارخانے میں تعینات تھے ان پر تو اثر ہواہی بلکہ آس پاس قریب 3کلو میٹرکے دارئرے میں اس کا اثر دیکھاگیا دم گھٹنے سے لوگ دہشت میں تھے کسی کو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا بھاگ کر جائیںتو کہاں جائیں ۔ان میں کچھ ایسے بھی تھے جو اندھیرے میں جاگرے کچھ کی سانس چل رہی تھی موت آنکھوں کے آگے کھڑی تھی چاروں طرف افرا تفری کا ماحول تھا لوگ دہشت میں آگئے کہ کہیں کورونا ہوا میں تونہیں پھیل گیا ۔رات کے اندھیرے میں یہی لوگ جہاں جیسے تھے وہاںسے بھاگ کھڑے ہوئے اور 4کلومٹر کے دائرے میں جاپہونچے وہاں افرا تفری مچ گئی ۔راستے میں ہی کچھ لوگ گرتے جا رہے تھے کئی جگہ پر لوگ بے ہوس پڑے تھے اور بہت سے جانور مرے ہوئے نظر آئے ۔بچوں کاندھوں پر ڈال کر لوگ اسپتال کی طرف بھاگ رہے تھے ۔بھرتی مریضوں میں بڑی تعداد میںبچے بھی شامل تھے اور حادثہ کی جگہ تک پہونچے میں کافی دشواری ہوئی ۔بہت سے لوگوں کو کارخانے کے دروازے توڑ کر نکلنا پڑا ۔گیس کے پلانٹ سے گیس رسا ہونے کی وجہ سے 8سال کے بچے سمیت 11لوگوں کی موت ہو گئی اور بہت سے لوگ ابھی اسپتالوں میں زیر علاج ہیں جن میں 20لوگ وینٹی لیٹر سپورٹ پر ہیں ریاستی حکومت نے واقعہ کی جانچ کے لئے اعلیٰ سطحی کمیٹی بنائی ہے ۔وساکھا پٹنم پولیس نے کارخانے کے خلاف مجرمانہ لاپرواہی کا مقدمہ درج کر لیا ہے اور اس میں غیر ارادی قتل اور لاپرواہی موت سے متعلق کئی دفعات لگائی گئی ہیں آندھرا پردیش ہائی کورٹ نے خود اس کا نوٹس لیتے ہوئے ریاستی اور مرکزی سرکار کو نوٹس جاری کئے ہیں ایسے انڈسٹریل حادثہ کی وجہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں یوں تو انتظامیہ نے کارخانہ منجمنٹ کے خلاف ایف آئی آردرج کرا دی ہے اور انتظامیہ اپنے حق میں معمولی چوک اور انسانی بھول جیس دلیلیں دے کر بچنے کی کوشش کر سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ صنعتی سکیورٹی کے تقاضوں کے معاملے میں لاپرواہی پر لگام کیوں نہیں لگتی ؟جن کارخانوں میں زہریلی گیسوں کا استعمال یا پیدا وار ہوتا ہے وہاں سکیورٹی کولیکر زیادہ ہوشیاری کی ضرورت ہے ۔بھوپال گیس ٹریجڈی کے تجربات کودیکھتے ہوئے اس کے لئے سخٹ گائڈ لائنس طے ہوئی تھیں مگر کارخانہ انتظامیہ اکثر معمولی پیسہ بچانے کے لئے لوگوں کی سکیورٹی اور انتظامات کو نظر انداز کرتا رہا ہے جہاں ایسی خطرناک گیسوں کا استعمال یا پیداوارہوتی ہے وہاں گیس اخراج وغیرہ کی صورت میں وارننگ سسٹم جو آٹومیٹک ہوں لگانا ضروری ہے پھر وشاکھا پٹنم کارخانہ میں گیس کا وسیع پیمانے پر اخراج ہو گیا کیسے انتظامیہ کو اس کی بھنک تک نہیں لگ پائی ؟آخر لوگوں کی جان کی قیمت پر ایسی لاپرواہی ہو اور من مانی کو کب تک نظر انداز کیا جاتا رہے گا ؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!