کجریوال کی تاریخی جیت ہے تو بھاجپا کی ہار اس سے بھی تاریخی

دیش کی راجدھانی دہلی میں 1998سے مسلسل اقتدار سے باہر بھاجپا کو ایک بار پھر اسمبلی چناﺅ میں ہار کا سامنا کرنا پڑا ۔نئی حکمت عملی اہم قومی اشو اور پوری طاقت جھونکنے کے باوجود بھاجپا کے حصے میں 70میں سے محض 8ہی سیٹیں ملیں ہیں ۔یعنی پچھلی بار محض پانچ زیادہ حالانکہ اس کا ووٹ شیئر 6فیصدی سے زیادہ بڑھا ہے ۔مگر حکمراں عام آدمی پارٹی کے مفت بجلی ،پانی ،عورتوں کو ڈی ٹی سی میں فری سفر محلہ کلینک ،جیسے اشو کا بھاجپا کوئی توڑ نہیں نکال سکی ۔بھاجپا کی قیادت والی این ڈی اے پچھلے دو برسوں میں 7ریاستوں میں اپنا اقتدار گنوا چکی ہے ۔پچھلی مرتبہ اسمبلی چناﺅ میں تین سیٹیں جیتنے والی بھاجپا کو اس مرتبہ اچھی کامیابی کی امید تھی مگر اس کے اندازے غلط ثابت ہوئے ۔اسی کے ساتھ بھاجپا کے لئے دیش کا سیاسی نقشہ بھی نہیں بدلا ۔دہلی سمیت بارہ ریاستوں میں اب بھی بھاجپا مخالف حکومتیں ہیں ۔این ڈی اے کے پاس 16ریاستوں میں سرکاریں ہیں دہلی میں کجریوال کی جیت تاریخی رہی لیکن بھاجپا کی ہار بھی اس سے زیادہ تاریخی ہے ۔دیش کی تاریخ میں بھاجپا پہلی بار اتنی بری طرح ہاری ہے ۔ہو سکتا ہے کہ نمبر اس کی حمایت نہ کرتے ہوں لوگ کہیں کہ بھاجپا 1983میں صرف دو سیٹیں لائی تھی اب ان چناﺅ میں پارٹی کی ایک بار پھر سے سب سے بڑی ہار مانی جا سکتی ہے ۔اور یہ کوئی عام شکست نہیں ہے جو بی جے پی کو 1984میں ہاری وہ مرکز میں اس وقت سرکار بھی نہیں تھی اس کے پاس کافی وسائل تھے دہلی چناﺅ میں پچھلی بار بی جے پی ہاری تو اس نے اتنی بڑی بازی نہیں کھیلی تھی اس بار کا چناﺅ خاص تھا تھوڑا بہت نہیں 350سیٹیں لوک سبھا میں جیتنے کے ماہر ایم پی اس بار دہلی سڑکوں پر انچ بائی انچ سڑکوں پر گھومتے رہے جو کبھی ایسا تاریخ میں دیکھنے کو نہیں ملا بھاجپا کے چانکہ مانے جانے والے ۔امت شاہ اس طرح بڑی محنت اور لگن سے چناﺅ میں کبھی نہیں اترے تھے اور خود انہوںنے گلی گلی گھوم کر ووٹ مانگے تھے اور اپنے ہاتھ سے پرچے تک بانٹے تھے ۔وزیر اعظم نریندر مودی نے زوردار تقریروں سے عام آدمی پارٹی اور کانگریس پر جم کر حملہ بولا تھا ۔امت شاہ نے اپنے انداز میں ہر طرح سے انتظامیہ کو داﺅں پر لگا دیا تھا شاہین باغ میں فائرنگ معاملے میں کپل گوجر نامی لڑکا پکڑا گیا تو کھل کر دہلی پولیس نے عام آدمی پارٹی کا نام تک لے لیا بی جے پی کے سارے وزیر اعلیٰ دہلی میں لوگوں کو رجھانے میں لگے تھے کچھ مذہب کے نام پر ووٹ مانگ رہے تھے تو کچھ لوگوں کو قسمیں کھلا رہے تھے ۔یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی ریلیاں جان بوجھ کر ایسے علاقے میں رکھی گئیں جہاں مسلم آبادی بہت تھی اور جس وجہ سے کشیدگی کا پورا امکان تھا اور انہوںنے وہاں اشتعال انگیزی پر مبنی تقریریں کیں لیکن پھر بھی بھاجپا ہار گئی ۔اس سے بڑی ہار کیا ہو سکتی تھی ۔اس لئے بھی سب سے بڑی ہار ہے پارٹی نے اپنا ترپ کا پتہ بے کا رپھینکا دھرم کے نام پر ووٹ کمانے کے لے پارٹی کے ایم پی پرویش ورما نے یہاں تک کہہ دیا کہ مسلمان دھرنے سے اُٹھ کر ہندوﺅں کے گھروں میں گھس جائیں گے اس بیان کے لئے چناﺅ کمیشن نے ان پر پابندی لگا دی اور وزیر مملکت خزانہ انوراگ ٹھاکر کے گولی مارو والے بیان کے لے ان پر ایف آئی آر درج ہوئی اور پابندی بھی لگی ۔بی جے پی نے اپنے سب سے خاص مہروں کو بھی داﺅں پر لگا دیا ۔شاہین باغ کو لے کر پارٹی کے ترجمان سنبت پاترا نے فرضی ویڈیو سوشل میڈا پر ڈالے دہلی میں خود وزیر اعظم مودی نے لوگوں سے سیدھے سیدھے ووٹ مانگے اور پارلیمنٹ میں صدر کے ایڈرس پر شکریہ کی تحریک پر بحث کے دوران وزیر اعظم نے وہی تقریر کی جو ان کی دہلی میں چناﺅ ی تقریر تھی اس مرتبہ بھاجپا نے دہلی کے ستر اسمبلی حلقوں میں پارٹی کی کمپین کے لے 350سے زیادہ نیتاﺅں کی فوج اتار دی بھاجپا حکمراں ریاستوں کے زیادہ تر وزیر اعلیٰ اور این ڈی اے کے ممبران نے بھاجپا کی چناﺅ مہم کے لئے ہاتھ ملایا لیکن پارٹی پھر بھی ہار گئی اور یہ بی جے پی کی سب سے بڑی ہار مانی جا سکتی ہے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!