گارگی کالج میں چھیڑ چھاڑ کا شرمناک واقعہ!

دہلی یونیورسٹی کے لڑکیوں کے گارگی کالج میں 6فروری کی شام طالبات سے جس طرح سے بد تمیزی چھیڑ خانی اور مار پیٹ کی گئی وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دہلی میں خواتین کتنی محفوظ ہیں؟بتا دیں کہ یہ واقعہ چھ فروری کو ایک فیسٹ فنکشن کے دن ہوا جس میں دس ہزار طالبات کی بھیڑ تھی اور اس تعداد کے مطابق وہاں حفاظت کے انتظام نہیں تھے ۔زوبن نوٹیال کے پروگرام کی وجہ سے شور شرابہ اتنا تھا کہ متاثرہ طالبات کی آواز کوئی سن نہیں پایا ۔سبھی کو انٹری کے لئے پاس جاری کیا گیا تھا ۔ایسے میں کیمپس میں بھاری بھیڑ اکھٹی ہو گئی جس میں باہری لڑکے بھی آگئے اور وہ طالبات سے قابل اعتراض حرکتیں کرتے رہے لڑکیاں چلائیں احتجاج کیا لیکن شور میں ان کی آواز کسی نے نہیں سنی جو سب سے آگے بیٹھے تھے انہیں تو پتہ بھی نہیں تھا کہ کالج کے اندر ایسا کچھ ہو گیا ہے ۔طالبات نے اس دن کی آپ بیتی بیان کرتے ہوئے بتایا کہ سالانہ فنکشن کے دوران کالج کے کمپس میں داخل لوگ تیس سا ل کی عمر کے آس پاس کے تھے اور نشے میں تھے او رطالبات کو زبردستی ان کے جسم کو چھوا اور گھسٹا یہ حرکتیں ایسی تھی جب پولیس اور سیکورٹی ملازم تماشہ دیکھتے رہے اور وہ حرکت میں نہیں آئے ۔ان سے چھیڑ خانی سے صاف ہو گیا ہے کہ ان کی سیکورٹی پوری طرح سے پھیل ہو گئی ہے ۔ایک طالبہ نے بتایا کہ کالج انتظامیہ نے سیکورٹی انتظامات کا دعوی کیا تھا لیکن بھیڑ کا فائد ہ اُٹھا کر کچھ غنڈے گھس گئے دیش کے کسی بھی کالج میں اس طرح کا واقعہ نہیں ہو ا ہوگا اگر طالبات نے اس واقعہ کو اتوار کے روز ٹوئٹر اور انسٹاگرام پر شیئر نہ کیا ہوتا تو اس کی خبر تک نہیں آپاتی ۔اور نہ ہی معاملہ لوک سبھا میں اُٹھتا ۔اب دہلی مہیلا کمیشن بھی حرکت میں آگیا ہے ۔اس نے بھی بر وقت کارروائی نہ کرنے کے لے پولیس کو نوٹس بھیج دیا ہے دہلی کے کالجوں میں حالانکہ سالانہ فنکشن کے دوران کچھ واقعات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں ۔اور ان سے بھی سبق لینا ضروری نہیں سمجھا گیا ۔اس واقعے نے دہلی میں قانون و نظام پر سوالیہ نشان اس لئے بھی لگا دیا ہے کہ دہلی میں کئی حکومتیں موجو د ہیں جس میں مرکزی حکومت دہلی حکومت وغیرہ شامل ہیں ۔چپے چپے پر پولیس کے نگرانی کیمرے لگے ہونے کا دعوی کیا جاتا ہے اس کے باوجود بھی جرائم پیشہ اگر بے خوف رہتے ہیں تو یہ سوال اُٹھنا فطری ہے کہ انہیں کہاں سے سرپرستی اور شہ مل رہی ہے ؟جرائم پیشہ عناصر جے شری رام کے نعرے لگا رہے تھے اور سی اے اے کی حمایت میں اس وقت ریلی بھی نکل رہی تھی شاید فنکشن کی آواز سن کر اس میں سے کچھ لوگ کالج میں گھس آئے ہوں بہر حال اس واقعہ پر پورے سماج کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ گارگی کالج میں لڑکیوں پر حملہ کرنے والے کون تھے او رکون انہیں سر پرستی دے رہا ہے؟

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!