تینوں ریاستوں میں چناوی تیاریوں میں لگی بھاجپا اور کانگریس
اس سال کے آخیر میںتین ریاستوں جھارکھنڈ،مہاراشٹر و ہریانہ اسمبلی کے چناﺅں کی تیاروں میں بھاجپا کانگریس لگ گئی ہیں ۔اسمبلی انتخابات میں بھاجپا کا اہم چناوی چہرہ ایک بار پھر وزیر اعظم نریندر مودی ہی ہونگے۔پی ایم مودی کی ڈھائی درجن چناوی ریلیوں کا حساب کتاب بنایا جا رہا ہے معلوم ہواہے کہ جھارکھنڈ و مہاراشٹر میں مودی کی زیادہ ریلیا ں ہوںگی ۔جبکہ ہر یانہ پردیش سے بھی چناﺅی تیاریوں کی رپورٹ مانگی گئی ہے ۔سال کے آخر میں تینوں ریاستوں میں ہونے جا رہے چناﺅ میں ریاستی سرکاروں کے ذریعہ کاموں کے علاوہ جموں و کشمیر میں 370ہٹانے کا بڑا اشو ہوگا ہر ریاست میں بھاجپا کی الگ حکمت عملی ہوگی بھاجپا کا دعوی ہے کہ دفعہ370کے خاتمے کو لے کر دیش بھر میں زبردست ماحول ہے لوگ اسے دیش کی قوت اور اتحاد کی شکل میں دیکھ رہے ہیں ۔مرکزی نیتا اپنی چناﺅ مہم میں اسے سب سے اوپررکھیں گے مہاراشٹر میں شیو سینا کے ساتھ اتحاد اور بکھری کانگریس و این سی پی کو دیکھتے ہوئے بھاجپا کو زیادہ دقت محسوس نہیں ہو رہی ہے ۔ہریانہ میں بھی سماجی تجزیہ بھاجپا کے حق میں ہیں ۔جھارکھنڈ میں بھی اگر اپوزیشن متحد ہوئی تو مقابلہ سخت ہوگا ایسے میں بھاجپا ہائی کمان تینوں ریاستوں کے لئے الگ الگ طرح کی حکمت عملی پر کام کر رہا ہے ۔وہیں کانگریس صدر سونیا گاندھی نے بھی آنے والے اسمبلی چناﺅ میں پارٹی کی تیاریوں کو تیز رفتار دینے کی کوشش شروع کر دی ہے ۔سونیا نے مہاراشٹر میں پارٹی نیتاﺅں سے کہا ہے کہ صوبے میں راشٹروادی کانگریس پارٹی کے ساتھ سیٹوں کے بٹوارے کو جلد قطعی شکل دی جائے گی۔وہیں جھارکھنڈ کے نیتاﺅں سے رائے شماری کے بعد پردیش میں نئی کانگریس لیڈر شپ کے مسئلے کو بھی سلجھانے کا دعوی کیا ہے ایسے اشارے ملے ہیں کہ صوبے کے نئے پردیش صدر کے ساتھ چار نگراں صدور کا نام بھی طے کیا جا سکتا ہے ۔مہارشٹر ،ہریانہ اور جھارکھنڈ میں کبھی کانگریس کی حکومت کا پرچم لہراتا تھا اب بھاجپا کا لہرا رہا ہے ۔کانگریس اقتدار میں واپسی کی امید لگائے ہوئے ہے لیکن کانگریس کے ہر صوبے میں پھوٹ پڑی ہوئی ہے ۔ہریانہ اور مدھیہ پردیش میں تو سینر لیڈر ناراضگی دکھا رہے ہیں ایسے میں پارٹی کو متحد کر کے بھاجپا کا سامنا کرنا بہت مشکل کام ہے سونیا گاندھی پورا زور لگا رہی ہیں لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ ان ریاستوں میں اسمبلی چناﺅ میں کانگریس کتنی یک جہتی سے لڑ پاتی ہے ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں