روح کانپنے والی بربریت سے ہوا ہاشم پورہ میں قتل عام!

دہلی ہائی کورٹ نے 31سال پہلے دیش کو جھنجھوڑ کر رکھ دینے والے میرٹھ کے ہاشم پورہ قتل عام کے معاملے میں پی اے سی کے 16سابق جوانوں کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔عدالت نے بدھ کو قتل عام کی پولس کے ذریعہ بے قصور لوگوں کی سازش کے تحت قتل اور ٹارگیٹ کلنگ قرار دیتے ہوئے نچلی عدالت کے فیصلے کو پلٹ دیا۔جس میں ملزمان کو بری کر دیا گیا تھا۔1987میں ہاشم پورہ میں اقلیتی فرقہ کے 42لوگوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔جسٹس ایس مرلی دھر ،جسٹس ونودگوئل نے کہا اس بات کو نظر انداز نہیں کیا سکتا کہ متوفی  اقلیتی فرقہ کے لوگ تھے۔یہ واردات قانون کی تعمیل کروانے کے لئے بنی فورس میں موجود مذہبی جانب داری کا انکشاف کرتی ہے۔عدالت نے سرکاری وکیل کے ذریعہ جرائم کی وجہ ثابت کر پانے اور بچائو  فریق کی دلیل کو مستر د کرتے ہوئے ہائی کورٹ نے صاف کہا کہ متاثرین کو سچائی جاننے کا حق ہے۔یہ انصاف کے حق کا اہم جز ہے۔اس معاملے میں پی اے سی نے روح کانپنے والی بربریت سے قتل عام کیا اور متوفین کے رشتہ داروں کو اندھیرے میں رکھا۔31سال لمبے انتظار میں متوفین کے رشتہ داروں کا بھروسہ سسٹم اور سرکار نے کمزور کیا۔22مئی1987کو ان کے رشتہ دار گئے اور لوٹ کر کبھی نہیں آئے اور ان کی لاشوں کو نہر کے پانی سے نکالا گیااور وہ بھی رشتہ داروں کو نہیں ملی۔وہیں امید کی جاسکتی ہے کہ سرکار مناسب قدم اُٹھائے گی۔جس سے قانون کی تعمیل کروانے والی ایجنسیوں کی جوابدہی ایسے معاملوں میں طے ہو سکے۔ہائی کورٹ نے2018میں آئی روپورٹ جس میں بھارت میں پولس نظام کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ پولس فورس میں مسلم فرقہ کی نمائندگی محض 2.5فیصد ہی ہے۔روپورٹ کے مطابق 64فیصد مسلمانوں نے مانا ہے کہ پولس کو دیکھ کر انہیں ڈر لگتا ہے یہ ڈر پولس کو ایک غیر جانب دار ایجنسی کی شکل میں ناکام بتاتا ہے۔عدالت نے کہا کہ متاثرین کو پی اے سی نے غیر قانونی طورنے یرغمال بنایا۔ٹرک میں ان کو مارا بھرا اور دو الگ الگ جگہ لئے گئے جہاں لے جا کر ان کو گولیاں ماریں ۔یہ حقائق سپریم کورٹ کو مطمئن کرنے کے لئے کافی ہیں۔ متاثرین کو غیرقانونی طور سے حراست میں لیا گیا تھا۔اور یہ حراستی ہلاکتوں کا معاملہ ہے جہاں ہمارا آئینی نظام انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کو موثر سزا نہیں دلا سکا۔دو سال چلا مقدمے میں موجود خاموشیوں کو دکھاتا ہے۔اور متاثرین کو انصاف دلانے میں جانب داری دکھاتا ہے۔ہاشم پورہ کانڈ میں دہلی ہائی کور ٹ کے فیصلے سے متاثر رشتہ داروں کے زخموں پر کچھ مرہم ضرور لگا ہے لیکن زخم ابھی بھی گہرے ہیں۔یہاں کے متاثرین کا درد آج بھی تازہ دکھائی دیتا ہے۔دہلی ہائی کورٹ نے بدھ کو جیسے ہی نچلی عدالت کا فیصلہ پلٹتے ہوئے 16سابق پولس والوں کو عمر قید کی سزا سنائی متاثرین کی آنکھوں سے آنسو چھلک اُٹھے ان آنسووں میں اپنوں کو کھونے کا غم تھا۔تو فیصلے کو لیکر تھوڑا سکون بھی ملا ۔حالانکہ نم آنکھوں سے کچھ متاثرین نے کہا قصورواروں کو پھانسی کی سزا ملتی تو زیادہ سکون ملتا۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟