سرکار بینکوں کیساتھ ٹوئٹنی۔20 کھیلنا بند کرے

آہستہ آہستہ یہ واضح ہوجارہا ہے کہ بھارت سرکار اور ریزرو بینک کے درمیان رشتے خراب ہوتے جارہے ہیں۔ ریزرو بینک بھی سی بی آئی کی طرح سرکاری چنگل سے آزاد ہونا چاہتا ہے۔ دوسری طرف ریزرو بینک کی پالیسیوں اور کام کاج کے طریقوں کی تنقید کھل کر شروع ہوگئی ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا کے ڈپٹی گورنر ورل آچاریہ نے بینکوں کی مختاری کی وکالت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرکار بینکوں کے ساتھ ٹوئٹنی۔ 20 میچ کھیلنا بند کردے ورنہ اس کے تباہ کن نتائج ہوسکتے ہیں۔ سی بی آئی میں جس وقت مرکزی سرکار کی مداخلت کو لیکر زلزلہ آیا ٹھیک اسی وقت بینکوں کی مختاری پر آچاریہ کی صلاح اہم ترین مانی جارہی ہے۔ بینکوں اور وزرا کے گٹھ جوڑ کی اکثر شکایتیں آتی رہتی ہیں۔ بڑھتے این پی اے اور بینکوں کا پیسہ لیکر بیرون ملک بھاگے مالی مجرموں کے ساتھ نیتاؤں افسروں کے رشتے پر بھی سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ ایسے میں بینکوں کے لئے آزادی کی مانگ اٹھا کر آچاریہ نے یہ جتانے کی کوشش کی ہے کہ اگر بینک اپنے مطابق کام کریں تو حالات تبھی بہتر ہوسکتے ہیں ورنہ تباہ کن نتائج کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ اے ڈی شراف میموریل لیکچر میں آچاریہ نے کہا جو مرکزی سرکار سینٹرل بینکوں کی آزادی کی قدر نہیں کرتی اسے دیر سویر مالی بازاروں کی ناراضگی کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ اہم ترین ریگولیٹری اداروں کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ تباہ کن ہوتا ہے۔ ادھر بھارت کے کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل (کیگ) راجیو مہرشی نے بینکوں کے موجودہ این پی اے کے بحران میں ریزرو بینک کے کردار کو لیکر سوال اٹھایا ہے۔ مہرشی نے پوچھا کہ جب بینک بھاری مقدار میں قرض دے رہے تھے جس سے اثاثہ اور دین داریوں میں عدم توازن پیدا ہوا اور قرض پھنس گئے تو بینکنگ سیکٹر ریگولیٹری آربی آئی کا کیا کررہا تھا؟ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق بینکنگ سیکٹر کی غیر ویریفائی راشی (این پی اے) یعنی پھنسا قرض 2017-18 کے اختتام پر 9.61 لاکھ کروڑ روپے تک پہنچ چکا ہے۔ آر بی آئی گورنر ارجیت پٹیل کو ایک بار پھر پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش ہونا پڑے گا اس بار انہیں آئی ایل اینڈ ایف ایس سنکٹ پر جواب دینا ہوگا۔ ذرائع کے مطابق یہ میٹنگ کسی بھی وقت ہوسکتی ہے۔ پارلیمنٹ کی مالی معاملوں کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین کانگریس کے سینئر لیڈر ویرپا موئلی پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ کمیٹی آئی ایل اینڈ ایف ایس معاملہ کو دیکھے گی۔ یہ دوسری بار ہوگا جب ایک سال میں ہی پٹیل کو دوسری بار پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش ہونا پڑے گا۔ بتادیں اس سے پہلے جون میں پنجاب نیشنل بینک جعلسازی کے معاملہ میں جواب دینے کے لئے بلایا گیا تھا۔ سرکار اور ریزرو بینک میں اختلافات و ٹکراؤ بڑھتا جارہا ہے یہ نہ تو آر بی آئی نہ سرکار اور نہ ہی دیش کے لئے اچھا اشارہ ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟