امیّ اگر میں زندہ رہا تو......!

آتنکی حملہ ہو گیا ہے.....دانتے واڑہ میں آئے تھے الیکشن کوریج کے لئے لیکن ..........ایک راستے تھے گذر رہے تھے،فوجی ہمارے ساتھ تھے......اچانک نکسلیوں نے گھیر لیا۔امی اگر میں زندہ بچا تو غنیمت ہے.....امی میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں .......ہو سکتا ہے کہ میں حملے میں مارا جائوں .......حالات صحیح نہیں ہیں،پتہ نہیں کیوں موت کو سامنے دیکھتے ہوئے ڈر نہیں لگ رہا ہے.......بچنا مشکل ہے۔یہاں پر 6,7جوان چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں۔یہ لفظ دور درشن کے اسسٹینٹ کیمرہ مین مور مکٹ شرما کے ہیں،جو منگوار کو ہوئے نکسلی حملے میں دانتے واڑہ کے جنگلوں میں پھنس گئے تھے۔انہوں نے بتایا کہ یہاں قریب 40منٹ تک فائرنگ ہوتی رہی ایسی خوفناک آوازیں میں نے تو صرف فلموں میں ہی سنی تھیں اور ان آوازوں سے پورا جنگل گونج رہا ہے۔معلوم ہو کہ نکسلی حملہ میں موکٹ کے ساتھی کیمرہ مین اچھوتا نند کی موت ہو گئی تھی۔دونوں ایک ہی بائک پر سوار تھے۔موکٹ نے بتایا کہ پتلا راستہ ہونے کے سبب ہمیں بائک سے جانا پڑا تھا اچانک گولا باری شروع ہوگئی ۔میں سڑک کے کنارے کھڈ میں چلا گیا۔میں نے سوچا اچھوتا نند مارا گیا ہے میرے پاس اتنا وقت نہیں تھا۔ان پلوں کو کیمرے میں قید  کر لوں ۔میں موبائل سے شوٹ کرنے لگا جہاں پر میں لیٹا ہوا تھا۔وہاں لال چینٹیوں کا جھنڈ تھا۔چینٹیاں میرے جسم پر رینگنے لگیں ۔اس لئے مجھے بیچ میں ہی ویڈیو بند کرنا پڑا۔حملے میں دو جوان شہید ہو گئے تھے۔ اور دور درشن کے کیمرہ مین اچھوتا نند شاہو کی بھی موت ہو گئی تھی۔ بھارت میں ڈیوٹی کے دوران صحافیوں کی زندگی پر خطرہ اب ایک عام بات ہو گئی ہے۔آئے دن کسی پترکار پر حملہ یا قتل واقعات ثبوت ہیں کہ صحافت کرنا اور سچی خبریں نکالنا خطرہ بھرا کام ہو گیا ہے۔یقینی طور سے ہمارے بہادر جوانوں کی جان بھی دیش کے لئے بے حد قیمتی ہے اور مائووادیوں کے حملہ میں دو لوگوں کی شہادت دکھ دینے والی واردات ہے لیکن ایک صحافی جس کا غیر جانب داری سے صرف واقعات کو درج کرنا تھا۔اس کی جان جانے کی اہمت بھی کم نہیں ۔اسی واردات میں ایک اور صحافی کی جان کسی طرح بچ سکی ۔یہ سب تب ہوا جب ماووادیوں کی جانب سے باقاعدہ ایک خط جاری کر کہا گیا تھا کہ بستر کے کسی بھی حصہ میں رپورٹنگ کے لئے پترکار آسکتے ہیں انہیں کسی بھی علاقہ میں آنے جانے سے نہیں روکا جائے گا لیکن تاج حملہ میں کیمرہ سنبھالے جس پترکار کی موت ہوئی ہے اس کی شناخت بھی مشکل نہیں تھی پھر بھی اسے نشانہ بنایا گیا آخر اس سے مائووادیوں کو کیا حاصل ہوا۔کہا جا سکتا ہے کہ جب جنگ یا حملہ کی صورت حال ہوتی ہے اس وقت ہتھیار چلانے والے صرف اس بات کو یاد رکھتے ہیں کہ وہ دشمن کا سامنا کر رہے ہیں۔ بھارت میں صحافیوں کو اس طرح کے خطرے کا سامنا صرف ماوئوادیوں کو متاثر یا کشمیر کے شورش زدہ علاقوں میں جنگ یا تشدد کے واقعات کے دوران ہی نہیں کرنا پڑتا بلکہ دوسرے عام طور پر ٹھیک ٹھا ک دکھائی دینے والے شہروں اور دور دراز کے دیہی علاقوں میں بھی کرپٹ یا مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث لوگوں کے بارے میں خبریں نکلانے والے صحافیوں کو بھی کبھی سیدھے حملہ میں تو کبھی حادثہ کی شکل میں مار دیا گیا ہے۔جوانوں کے ساتھ میڈیا ملازمین کا اس طرح جانا انتہائی تکلیف دہ ہے۔ہم شہید ہونے والے جوانوں اور دور درشن کیمرہ مین کے شہید ہونے اپنی شردھانجلی دیتے ہیں ایک طرف صحافی بے تکے تشدد کا شکار ہو گیا۔وہ تو محص اپنی ڈیوٹی ہی کر رہا تھا۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟