ایودھیا میں رام مندر تعمیر عدالت کی ترجیح نہیں

یہ انتہائی مایوس کن ہے کہ سپریم کورٹ نے ایودھیا معاملے کی سماعت جنوری تک ٹال دی ہے۔رام بھگتوں کو امید تھی کہ جیسا عدالت نے کہا کہ وہ ایودھیا معاملے کی سماعت روز مرہ کرئے گی اس امید پر عدالت نے پانی پھیر دیا ہے۔جنوری میں سپریم کی نئی بنچ یہ طے کرئے گی کہ اس معاملے کی سماعت کب ہو؟چیف جسٹس کی سربراہی والی پنچ کی طرف سے جس طرح کہا گیا یہ متعلقہ بنچ ہی طے کرئے گی کہ معاملے کی سماعت جنوری ، فروری،اور مارچ یا اپریل میں کب ہوگی۔اس سے تو یہی لگتا ہے کہ اس تنازع کا جلد حل نکالنے میں سپریم کورٹ کی ترجیحات میں نہیں ہے۔کیا اس بات کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے کہ ایودھیا پر الہ آبادہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگائے ہوئے سات سال گزر چکے ہیں پھر بھی معاملے پر سماعت جلد سے جلد ہونی چاہئے اس میں جلد انصاف کی کوئی صورت نہیں بن رہی ہے۔صاف ہے کہ ایودھیا معاملہ عدالت کو فورا جلدی یومیہ سماعت کے لائق نہیں لگا۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد ایودھیا معاملے پر عام چنائو سے پہلے فیصلہ آنے کا امکان ختم ہوگیا لگتا ہے۔اس معاملے میں یہ فیصلہ مایوس کن ہے سپریم کورٹ کے پاس معاملہ سات برسوں سے زیادہ عرصے تک لٹکا ہوا ہے۔ایودھیا مسئلے کا حل آج پورا دیش چاہتا ہے اور وہ بھی جلدی۔سادھو سنتوں کو لے کر وی ایچ پی وغیرہ کا بیان آرہا ہے سرکار فورا آرڈیننس لا کر مندر تعمیر کا راستہ ہموار کرئے اور بعد میں اسے بل کی شکل میں پیش کر پارلیمٹ میں قانون بنا دے۔اپورزیشن پارٹیوں نے سیاسی حکمت عملی کے تحت کہنا شروع کر دیا ہے کہ سرکار کو کسی نے آرڈنینس لانے سے روکا نہیں ؟مودی سرکار و بھاجپا کے لئے عجب صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔وہ فورا کوئی قدم نہیں اُٹھاتی ہے تو پانچ ریاستوں کے اسمبلی چنائو میں اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑئے گا ۔اگر سرکار معاملہ اُٹھاتی ہے تو اسے سپریم کورٹ کو نذر انداز کرنا ہوگا ۔اپوزیشن کو لگتا ہے کہ اس کے دونوں ہاتھوں میں لڈو ہے۔تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ بغیر تعاون ایسا کوئی قانوں ممکن نہیں ہے جو ایودھیا میں رام مند ر کی تعمیر کا راستہ صاف کرئے ۔اگر وہ بھی بن جاتا ہے تو اسے عدالت میں چنوتی دی جا سکتی ہے اس کے ساتھ ہی رام مند ر کا راستہ صاف کرنے کے لئے ایودھیا تنازع کا حل آپسی رضامندی سے نکلے اگر ایسی کوئی کوشش ایمانداری سے ہو سکتے تو ایودھیا معاملے کی سماعت ٹالنے کو ایک موقع میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔اچھا تو 
یہی ہوگا کہ آپسی رضامندی اور بھائی چارگی کے راستے سے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر ہو۔

(انل نریندر)


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!