سری لنکا میں اس وقت دو وزیر اعظم ہیں

پڑوسی دیش سری لنکا کی سیاسی صورتحال دھماکہ خیز بن گئی ہے۔ وہاں اقتدار کی لڑائی سے نہ صرف سری لنکا ہی بلکہ پورے خطہ میں حالات خراب ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ اس وقت وہاں دو دو وزیر اعظم ہیں۔صدر میتری پالا سری سینا نے جمعہ کو رنل وکرم سنگھے کو برخاست کر مہندر راج پکشے کو وزیراعظم کا حلف دلادیا۔ ایتوار کو صدر نے دیش کے سامنے اپنے فیصلہ کو صحیح ٹھہرانے کی کوشش کی وہیں راج پکش نے دیش میں جلد پارلیمانی چناؤ کرانے کی بات کہی ہے۔ راجپکش کو چین کا حمایتی مانا جاتا ہے۔ صدر شی جن پنگ تو انہیں مبارکباد بھی دے چکے ہیں۔ سری لنکا کے صدر کے فیصلہ کو جھٹکا دیتے ہوئے پارلیمنٹ کے اسپیکر جے سوریہ نے رنل وکرم سنگھے کو دیش کے وزیر اعظم کی شکل میں منظوری دے کر بحران کھڑا کردیا ہے۔ اس طرح اس وقت سری لنکا کے دو وزیر اعظم ہیں۔ اسپیکر جے سوریہ نے کہا کہ وکرم سنگھے کو جمہوریت مضبوط کرنے اور گڈ گورننس کے لئے مینڈیڈ ملا ہے۔ اسپیکر کے موقف سے برخاست وزیر اعظم وکرم سنگھے کے دعوی کو طاقت ملی ہے۔ صدر میتری پالا سری سینا کے ذریعے وزیر اعظم رنل وکرم سنگھے کو عہدہ سے ہٹانے ،پارلیمنٹ کو آنے والی16 نومبر تک ملتوی رکھنے اور مہندرا راج پکش کو چپ چاپ وزیر اعظم کے عہدہ کا حلف دلانے جیسے تابڑ توڑ فیصلہ لینے سے دیش میں آئینی بحران تو پیدا ہوہی گیا ہے ہند مہا ساگر کے جزیرہ نما دیش میں پیدا ہوئے اس سیاسی عدم استحکام میں بھارت سمیت بین الاقوامی برادری کو فکر مند کردیا ہے۔ حالانکہ پارلیمنٹ کے اسپیکر وکرم سنگھے کو ہی وزیر اعظم بنا کر انہیں تھوڑی طاقت ضرور دے دی ہے لیکن حالات تو تب واضح ہوں گے جب راج پکش کو اپنی اکثریت ثابت کرنے کو کہا جائے گا۔ وکرم سنگھے کو بھارت حمایتی بتایا جاتا ہے جبکہ کچھ سال پہلے تک ایک ہی پارٹی میں رہے سری سینا اور راج پکش کی چین سے نزدیکی ہے۔ سال2015 میں راج پکش کو ہراکر سری سینا راشٹرپتی بنے تھے۔ بھارت کے تئیں ان دونوں کے رویئے کا پتہ اسی سے چلتا ہے کہ سری سینا نے جہاں پچھلے دنوں بھارت پر اپنے قتل کی سازش رچنے کا الزام لگایا تھا حالانکہ بعد میں وہ اس الزام سے مکر گئے، وہیں راج پکش اس سے پہلے اپنی ہار کے لئے بھارت کو ذمہ دار ٹھہرا چکے ہیں۔ لیکن سری لنکا کے موجودہ حالات کا سبب یہ نہیں کہ اس کے پیچھے اپنی پرانی تلخی بھلا کر سری سینا اور راجپکش ایک ساتھ دیش کے اقتدار میں رہنے کی ہوس بھی ہوسکتی ہے۔ سری سینا نے پارلیمنٹ ملتوی اس لئے کی ہے تاکہ اس دوران راج پکش ضروری اکثریت جٹا سکیں۔ حالانکہ سری لنکا کے آئین میں کی گئی ترمیم کے بعد وزیر اعظم کو عہدہ سے ہٹانے کا اختیار نہیں ہے۔ اس کے علاوہ چھوٹی پارٹیوں نے بھی وکرم سنگھے کی حمایت کی بات کہی ہے۔ سری لنکا میں تیزی سے بدلے واقعات کے دوران اپنی ساکھ کھو چکے سری سینا سے صرف امید کی جاسکتی ہے کہ وہ آئین کی تعمیل کریں گے اور بھارت کے لئے ایک پائیدار اور بھارت کے تئیں حمایتی حکومت ضروری ہے۔ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!