چلا گیا دہلی کا شیر۔۔۔!

سابق وزیر اعلی مدن لال کھورانہ دہلی کے شیر کے نام سے بھی جانے جاتے تھے۔ وہ دہلی بھاجپا کے ایک محض ایسے نیتا رہے جس کے سبب بھاجپا کو اقتدار نصیب ہوا۔ سال1993 میں کھورانہ جی کے وزیر اعلی بننے کے بعد ہوئے انتخابات میں بھاجپا اقتدار میں واپسی نہیں کرپائی۔ سال 1993 کے اسمبلی انتخابات میں بھاجپا نے مدن لال کھورانہ کی قیادت میں بھاری کامیابی حاصل کی تھی اور وزیر اعلی بنے تھے۔ مجھے یاد ہے ایک وقت کھورانہ جی دیش کے وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤسے بھی زیادہ مقبول تھے۔ جین حوالہ کانڈ معاملہ میں ان کے خلاف چارج شیٹ داخل ہونے کے بعد انہوں نے خود ہی استعفیٰ دے دیا اور ان کی جگہ اس وقت کے وزیر رہے صاحب سنگھ ورما کو وزیر اعلی بنایا گیا۔ حالانکہ اڈوانی جی کے ساتھ ان کا نام حوالہ کانڈ معاملہ میں ان کا نام بھی آیا تھا لیکن ان کو پھر سے سی ایم کی گدی نصیب نہیں ہو پائی۔بھاجپا قیادت نے ان سے ناانصافی کی اور چاہتے ہوئے بھی انہیں دوبارہ اس عہدے پر نہیں بٹھایا گیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کو دہلی میں قائم کرنے والے مدن لال کھورانہ کی زندگی دہلی سے ہی وابستہ تھی اور وہ مرکز میں وزیر بنے ہوں یا راجستھان کے گورنر دہلی کی سیاست سے دوریاں انہیں کبھی نہیں بھائیں۔ انہوں نے ایک بار یہاں تک کہہ دیا تھا کہ دہلی ان کا مندر ہے اور وہ اس کے پجاری ہیں۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد جب پارٹی حاشیے پر چلی گئی تو انہوں نے اپنی محنت اور مقبولیت سے اسے صفر سے چوٹی تک پہنچایا۔ کھورانہ جی نے ہمیشہ سیدھی سیاسی لڑائی لڑی اور ان کے سامنے کانگریس ہمیشہ رہی ہے۔ مدن لال کھورانہ ایک واحد ایسے لیڈر تھے جن کی دوکانداروں اور تاجرو ں کے علاوہ ہر فرقہ میں گہری پکڑ تھی۔ کھورانہ جی کے رہتے موتی نگر اسمبلی حلقہ میں کبھی بھی کوئی پارٹی قبضہ نہیں کرپائی۔ دہلی میں ان کے علاوہ بھاجپا میں سے کوئی نیتا نہیں ہوا جس نے سبھی طبقوں میں اپنی پہچان بنائی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں دہلی کا شیر کہا جاتا تھا۔ ان کے مخالف بھی اس بات کو مانتے تھے کہ کھورانہ جیسا نیتا دہلی میں بھاجپا کو کبھی نہیں مل پایا اور وہ انہیں شیر دل کی شکل میں مانتے تھے۔ وہ 82 سال کے تھے۔ دہلی کے کیرتی نگر میں اپنے مکان میں آخری سانس لی۔مدن لال کھورانہ پچھلے تقریباً پانچ سال سے برین ہمیبرج کی وجہ سے نزہ میں تھے۔ حال ہی میں ان کے بڑے بیٹے ومل کھورانہ دل کا دورہ پڑنے سے دیہانت ہوا تھا۔ کھورانہ جی دوستوں کے دوست تھے، ہر ایک کی مدد کرتے تھے۔ ہمارے لئے تو کھورانہ جی کا جانا ایک پریوار کے ممبر کے جانے کے برابر ہے۔ وہ کس قدر مدد کرتے تھے اس کی آپ بیتی سناتا ہوں۔ہمارا اخبار ’’ویر ارجن‘‘ ایک سرکاری مالی ادارہ سے بقایا قرض پر اختلاف ہوگیا تھا۔ یہ بات 90 کی دہائی کی ہے۔ ہماری جائز مانگ بھی وہ ماننے کو تیار نہیں تھے۔ جب کوئی چارہ نہیں بچا تو ہم (میرے پتا سورگیہ کے نریندر) کھورانہ جی سے ملنے گئے۔ ہم نے پہلے سے ہی انہیں اپنا مسئلہ بتا دیا تھا۔ جب کھورانہ جی کے دفتر میں میٹنگ ہوئی تو اس وقت اس مالی ادارہ کے چیف اپنے اسٹاف کے ساتھ موجود تھے۔ ہم نے اپنی بات رکھی اور اس مالی ادارہ کے چیف نے اپنی دلیلیں قائدے قانون پیش کئے۔ کھورانہ جی کو ہماری دلیلوں میں دم نظر آیا اور انہوں نے اس مالی ادارہ کے چیف سے کہا ان کی دلیلوں کے مطابق ان کے حقائق کے مطابق آپ فیصلہ کردیں۔ اس چیف نے ایسا کرنے سے منع کردیا اور اپنی بات پر اڑا رہا۔ جب کھورانہ جی نے سختی سے اسے کہا تو اس نے کہا آپ تحریر میں حکم دے دیں تو تبھی کروں گا۔ کھورانہ جی نے ایک منٹ نہیں لگایا اور اس کی فائل پر تحریری احکامات دے دئے۔ اگر اس دن کھورانہ جی اتنا سخت موقف نہ اپناتے ،اور وہ بھی تحریر میں تو ویر ارجن آج شاید زندہ نہ ہوتا۔ اس بات کو ہم کیسے بھول سکتے ہیں اور یہ اتفاق دیکھئے کہ کھورانہ جی کا دیہانت بھی 27 اکتوبر کو ہوا جس دن میرے سورگیہ پتا جی کے نریندر کا بھی دیہانت ہوا تھا۔ کھورانہ جی کوہم کبھی نہیں بھول سکتے۔ بھگوان ان کی آتما کو شانتی دے۔ پریوار کو اس ناقابل تلافی نقصان سے نکلنے میں ہمت فراہم کرے۔ اوم شانتی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟