سوال آندھرا ۔بنگال میں سی بی آئی کی نو اینٹری کا
آندھرا پردیش اور پشچمی بنگال کی سرکار وں نے شکروار کو اپنے راجیہ میں سی بی آئی کے داخلہ پر روک لگادی ہے۔ سرکار نے راجیہ کے قانون کے تحت اب اپنی طاقتوں کے استعمال کے لئے دی گئی جنرل رضامندی واپس لے لی۔ اس رضامندی کو واپس لینے کے بعد سی بی آئی کو ان راجیوں میں کسی بھی قسم کے چھاپہ یا جانچ کی کارروائی کے لئے راجیہ سرکار کی اجازت لینی ہوگی، جبکہ جنرل منظوری خودکار منظوری کی طرح ہوتی ہے۔ بتادیں کہ سی بی آئی دہلی پولیس اسٹیبلشمنٹ قانون 1946 کے تحت کام کرتی ہے۔ اس قانون کی دفعہ 6 کے تحت سی بی آئی کو معاملوں کی جانچ کے اختیار ملے ہیں۔ دفعہ6 کے مطابق سی بی آئی کے کسی بھی ممبر کو راجیہ کے کسی حصہ میں جانچ و کارروائی سے جڑے اختیارات کے استعمال کےلئے راجیہ سرکار کی منظوری کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مودی سرکار سے مارچ میں رشتے توڑنے کے بعد سے نائیڈو الزام لگاتے رہے ہیں کہ مرکزسی بی آئی جیسی ایجنسیوں کا استعمال سیاسی مخالفوں کو نشانہ بنانے کے لئے کررہا ہے۔ نائیڈو کچھ کاررباری اداروں پر انکم ٹیکس محکمہ کے حالیہ چھاپہ سے بھی ناراض ہیں۔ وہیں شکروار کو پشچمی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی نے نائیڈو کے سمرتھن میں اترتے ہوئے کہا کہ این ڈی اے سرکار پر سی بی آئی اور آر بی آئی جیسی اہم تنظیموںکو برباد کرنے کا الزام لگایا۔ بھاجپا سیاسی فائدوں و بدلے کے لئے سی بی آئی کا استعمال کرہی ہے وہیں بھاجپا نے آندھرا اور پشچمی بنگال سرکار کے ذریعے سی بی آئی کو دئے گئے اختیارات واپس لینے پر سخت حملہ بولا۔ بھاجپا ترجمان جی بی ایل نرسمہاراﺅ نے الزام لگایا کہ یہ بدعنوانی چھپانے کی کوشش ہے۔ وہیں دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے نائیڈو کے فیصلہ کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے صحیح کیا ہے۔ سی بی آئی اور انکم ٹیکس محکمہ کا غلط استعمال کیا جارہا ہے۔ نائیڈو انکم ٹیکس محکمہ کے افسران کو بھی اپنے راجیہ میں مت گھسنے دینا۔ سی بی آئی ترجمان نے کہا کہ آندھرا پردیش میں پابندی پر راجیہ سرکار کی جانب سے کوئی جانکاری نہیں ملی ہے۔آرڈر کی اطلاع ملنے کے بعد قانونی متبادل پر غور کریںگے۔ ویسے سی بی آئی کے قانونی طور پر جائز ہونے پر پہلی بار سوال نہیں اٹھے ہیں۔ اعلی سرکاری ذرائع نے بتایا کہ ڈی ایس آئی کے تحت سی بی آئی کی تشکیل اور کام پر پہلے بھی کئی بار مرکزی سرکار کو بچاﺅ کرنا پڑچکا ہے۔ گوہاٹی ہائی کورٹ تونومبر2013 کو اپنے فیصلہ میں سی بی آئی کی تشکیل اور اس کے کام کاج کو ہی غیر قانونی قرار دے چکا ہے حالانکہ سی بی آئی کا کہنا ہے کہ معاملہ کا آندھرا پردیش کے مکھیہ منتری چندرابابو نائیڈو کے اس فیصلہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ گوہاٹی ہائی کورٹ نے اپیل کرنے والے دیویندر کمار کی رٹ پر سنوائی کے بعد سی بی آئی کی تشکیل کو ہی غیر قانونی بتایا تھا۔ فیصلہ میں ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ عدالت ایک اپریل 1963 کے اس پرستاﺅ کو خارج کرتی ہے جس کے تحت سی بی آئی کی تشکیل کی گئی تھی۔ سی بی آئی ڈی ایس پی ای کا حصہ یا انگ نہیں ہے۔ سی بی آئی کو کسی بھی لحاظ سے ڈی ایس پی ای ایکٹ 1946 کے تحت پولیس ادارہ نہیں مانا جاسکتا۔ گوہاٹی ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف مرکزی سرکار نے سپریم کورٹ سے گہار لگائی تھی۔مرکزی کی اپیل پر اس وقت کے چیف جسٹس نے اپنی رہائش پر ہی سنوائی کی تھی اور ہائی کورٹ کے فیصلہ پر روک لگادی تھی۔ سپریم کورٹ میں یہ معاملہ التوا میں ہے۔ اس چناوی سال میں سی بی آئی پر پابندی مرکزی سرکار کے لئے دھکا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو بھی سرکار مرکزمیں آئی اس نے سی بی آئی کا غلط استعمال کیا۔ چاہے وہ یو پی اے ہو اور چاہے این ڈی اے ہو۔ سوال یہاں بھی اہم ہے کہ ان ریاستوں میں جو کیس سی بی آئی نے درج کررکھے ہیں جن میں جانچ ہوچکی ہے ان کا کیا ہوگا؟ کہا تو یہ بھی جارہا ہے کہ نائیڈو کے اس قدم کے پیچھے ان کا شخصی ڈر ہے۔ سی بی آئی ڈائریکٹر آلوک ورما کو دو کروڑ اور اسپیشل ڈائریکٹر راکیش استھانہ کو دو کروڑ95 لاکھ روپے کی رشوت دینے کا دعوی کرنے والے ستیش بابو سنا حیدر آباد کے ہیں۔اسے نائیڈو کا قریبی مانا جاتا ہے۔ چرچا ہے کہ نائیڈو کے ساتھ اس کے لین دین کے پختہ دستاویز موجود ہیں۔ سنا نے سی بی آئی کے سامنے مانا ہے کہ ایک ٹی ڈی پی ممبر پارلیمنٹ نے اسے بچانے کے لئے سی بی آئی ڈائریکٹر سے بات کی تھی۔ جانچ میںان دستاویز کے باہر آنے کے امکانات ہیں۔ نئے نوٹیفکیشن کے بعد آندھرا پردیش میں سنا کے خلاف سی بی آئی جانچ روکی جاسکے گی۔ بتایا جارہا ہے کہ سی بی آئی خود معاملہ کی جانچ شروع نہیں کرسکتی۔ راجیہ اور مرکزی سرکار کے کہنے یا ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے حکم پر ہی جانچ کرسکتی ہے۔ ایسے میں اگر کوئی راجیہ سی بی آئی کو بین کرتا ہے تو کورٹ کے حکم کے بعد راجیہ سرکار کاحکم رد ہوجائے گا۔ یہ طے ہے کہ مرکزی سرکار آندھرا اور پشچمی بنگال کے تازہ بین پر سپریم کورٹ کا دروازہ ایک بار پھر کھٹکھٹائے گی۔ ویسے بھی سپریم کورٹ میں گوہاٹی ہائی کورٹ کا فیصلہ التوا میں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اسی بنیاد پر مرکزی سرکار ان دو راجیوں کے بین کو چنوتی دے۔ دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں