کےا نجی گاڑےوں پر پابندی لگانا کثافت کا حل ہے؟

راجدھانی دہلی۔ اےن سی آر مےں بڑھتی کثافت کے مسلہ سے کےسے نپٹا جائے ؟ کےا آڈ اےون اسکےم کو پھر سے لاگو کےا جائے ےا پھر نجی پےٹرول۔ ڈےژل گاڑےوں پر پوری طرح روک لگائی جائے؟ ےہ سوال انوائنمےنٹ پالوشن کنٹرول بورڈ (ای پی سی اے) کے سامنے ہے۔ ای پی سی اے نے اےن سی آر مےں دوبارہ اےمرجنسی صورتحال بننے پر نجی گاڑےوں پر مکمل پابندی ےا آڈ اےون انتطام لاگو کرنے کی سفارش کی ہے۔ےہ حےران کرنے والی بات ہے کہ گزشتہ دو سالوں کے مقابلہ مےں اس سال دہلی مےں کم پالوشن درج کےا گےا ہے۔ سی پی سی بی نے ےکم جنوری سے 11 نومبر تک دہلی کی ہوا کا معےار 158 دن خراب درج کےا ہے، جب کے اسی مےعاد مےں سال 2016 مےں 197 دن اور سال 2017 مےں 166 دن دہلی کی ہوا کا معےار خراب رہا تھا۔ کہنے کا مطلب ےہ ہے کہ پالوشن کا مسلہ صرف اس سال کا نہےں ہے۔ اس کے لءٹھوس مستقل قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اگر ای پی سی اے دہلی مےں نجی گاڑےوں پر روک لگاتی ہے تو دہلی ٹھپ ہو جائے گی۔ اس پابندی سے دہلی نواسی کا اس کی پابندی کرنا ناممکن ہوجائے گا۔ستمبر 2018 تک راجدھانی مےں رجسٹرڈ گاڑےوں کی تعداد قرےباً 1.10 کروڑ ہے۔ اس مےں سے 38لاکھ گاڑےاں 10 و 15 سال پرانی گاڑےوں کی فہرست مےں آگئی ہےں۔بچے 72 لاکھ گاڑےوں مےں 30 فےصدی کارےں و66فےصدی دوپہےہ گاڑےاں ہےں۔ آٹو ٹےکسی اور دےگر کمرشےل گاڑےوں کی تعداد محض چار فےصد ہےں۔اس طرح قرےب 48لاکھ دوپہےہ اور 25 لاکھ کارےں ہے۔دو پہےہ تو پےٹرول سے چلتے ہےں۔ کاروں مےں لگ بھگ 10.5فےصد سی اےن جی، 2.5لاکھ ڈےژل سے چلنے والی اور قرےب 12لاکھ پےٹرول سے چلنے والی ہےں۔اعدادو شمار کے مطابق 30لاکھ مسافر روزانہ بسوں مےں سفر کرتے ہےں اور لگ بھگ 29لاکھ مےٹرو سے چلتے ہےں۔ جبکہ تقرےباً 60 لاکھ لوگ بپتر پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی مےں مجبوری مےں نجی گاڑےوں کا سہارا لےنے پر مجبورہےں۔اےسے مےں اگر نجی گاڑےوں پر پابندی لگا دی جاتی ہے تو ےہ تمام ساٹھ لاکھ لوگ ےاتو سڑکوں پر آجائےں گے ےا پھر گھر بےٹھنے پر مجبور ہوجائےں گے۔ان زائد اشخاص کو ڈھونے کی صلاحیت نہ تو ڈی ٹی سی اور کلسٹر بس سروس کی ہے اور نہ ہی دہلی میٹرو کی ۔چونکہ اولا اور ابرکمپنی کی بھی زیادہ تر ٹیکسیاں ڈیژل سے چلتی ہیں لہذا ان کا بھی کوئی سہارا نہیں مل پائےگا۔اب اگر دہلی میں پالوشن کے اعداد و شمار پر آئیں تو 38فیصد پالوشن کی وجہ سڑکوں کی دھول ،11فیصدی انڈسٹریل اکائیاں ،12فیصدی پرالی،6فیصدی کنکریٹ ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ج نجی گاڑیاں دہلی۔این سی آر میں صرف 3فیصد پالوشن کے لئے ذمہ دار ہیں ،اس لئے جب تک کافی بڑی وجوہات کی نشاندہی نہیں کی جائے اور اس کے مستقل حل کے لئے ٹھوس قدم نہیں اٹھائے جاتے نجی گاڑیوں پر پابندی لگانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔یہ مسئلہ آج کا نہیں ہے۔پرالی جلانے سے معاملہ اور خراب ہو رہا ہے۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!