آرکبشپ کے خط سے مچا سیاسی واویلا

دہلی کے پادری آرکبشپ انل کاؤپی کا سبھی گرجا گھروں کو لکھا خط سامنے آنے کے بعد ہائے توبہ مچنا فطری ہی تھا۔ مانا جارہا ہے کہ درپردہ طور سے انہوں نے سال2019 میں نریندر مودی کی سرکار نہ بنے اس کے لئے لوگوں سے دعا کرنے کی اپیل کی ہے۔ آرکبشپ انل کاؤپی نے آخری لکھا کیا تھا جو اتنا ہنگامہ ہوگیا؟ انہوں نے کچھ یوں لکھا: ہم لوگ شورش پسند سیاسی ماحول کے گواہ ہیں۔ اس وقت دیش کے جو سیاسی حالات ہیں اس میں جمہوری اصولوں اور دیش کے سیکولر زم کی پہچان کے لئے خطرہ پیدا کردیا ہے۔ سیاستدانوں کے لئے پرارتھنا کرنا ہماری مقدس روایت رہی ہے۔ لوک سبھا چناؤ قریب ہیں جس کے سبب یہ بھی اہم ہوجاتا ہے 2019 میں نئی سرکار بنے گی ایسے میں ہمیں اپنے دیش کے لئے پرارتھنا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے اگلے سال ہونے والے لوک سبھا چناؤ کے لئے پرارتھنا کے ساتھ ہی ہر جمعہ کو ایک دن کھانا نہ کھائیں تاکہ دیش میں امن ، جمہوریت ،برابری ، آزادی اور بھائی چارہ بنا رہے۔ 13 مئی کو مدر مریم نے درشن دئے تھے۔ اس لئے یہ مہینہ عیسائی مذہب کے لئے خاص اہمیت رکھتا ہے۔ آرکبشپ نے اس خط کو چرچ میں منعقدہ پریئر میٹنگ میں پڑھنے کی بھی اپیل کی ہے جس سے لوگوں تک یہ بات پہنچ سکے۔ آرکبشپ کے اس خط پر سیاسی پارہ چڑھنا لازمی ہے۔ اس کی بڑی وجہ عیسائی آبادی کا 40 لوک سبھا سیٹوں پر اثر ہونا ہے۔ دیش میں عیسائیوں کی آبادی 2.4 فیصد ہے۔ ابھی 25 ایم پی عیسائی ہیں۔ مرکز میں اس فرقہ سے الفونس کترادھننجے وزیر بھی ہیں، وہیں دوسری طرف نارتھ ایسٹ اسٹیٹ کی چار ریاستوں گووا (41 فیصد)، میگھالیہ (70 فیصد)، میزورم (87 فیصد)، ناگالینڈ (90 فیصد) عیسائی اکثریت ہے۔ چھ ریاستوں آسام، اروناچل ،گوا، اڑیشہ، تملناڈو اور چھتیس گڑھ میں عیسائی آبادی دوسرے نمبر پر ہے۔ یہ آبادی سیاست کو سیدھے متاثر کرتی ہے۔ خط پر اٹھے سیاسی واویلے کے بعد آرکبشپ کو جواب دینے کے لئے بھاجپا صدر امت شاہ 15 مرکزی وزیر اور اتنے ہی ممبر پارلیمنٹ میدان میں اتر آئے۔ امت شاہ نے کہا کہ لوگوں کو مذہبی بنیاد پر یکجا نہیں ہونا چاہئے۔ وہیں گری راج سنگھ نے کہا کہ اگر 2019 میں مودی سرکار نہ بنی اس کے لئے چرچ لوگوں سے پرارتھنا کرنے کے لئے کہیں تودیش کو سوچنا ہوگا کہ دوسرے دھرم کے لوگ اب کیرتن پوجا کریں گے۔ ادھر آر ایس ایس کے پرچارک راجیش سنہا نے کہا کہ ہندوستانی جمہوریت میں اور مذہبی آزادی پرحملہ ہے۔یہ ہندوستانی چناؤ عمل میں ویٹیکن کی سیدھی مداخلت ہے کیونکہ آرکبشپ کی تقرری پوپ کرتا ہے۔ بشپ کی وفاداری سیدھے طور پر پوپ کے تئیں ہوتی ہے نہ کہ بھارت سرکار کے تئیں۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی نے آرکبشپ کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ہم سبھی برادری ،فرقہ اور کولکتہ سمیت پورے دیش کے آرکبشپ کا احترام کرتے ہیں۔ آرکبشپ نے جو کہا صحیح کہا ہے۔ یہ سچ ہے کہ وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کا کہنا تھا بھارت مذہب اور پنتھ کی بنیادپر کسی سے امتیاز نہیں برتا ، یہاں ہر مذہب کے لوگ محفوظ ہیں۔ دیش میں کسی کو بھی اس طرح کا نظریہ رکھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اپنے خط کے بعد بھاجپا کے نشانہ پر آئے آرکبشپ نے صفائی دی اور کہا یہ تبصرہ مودی سرکار پر نہیں تھا۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ ایسی سرکار بنے جو لوگوں کو آزادی، حقوق اور عیسائی فرقہ کی بھلائی کی فکر کرے۔
(انل نریند)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!