متحدہ اپوزیشن کی آنچ سے مرجھانے لگا ہے کمل

جب کرناٹک کے ووٹوں کی گنتی ہورہی تھی تب بھاجپا صدر اور چانکیہ کہے جانے والے امت شاہ وزیر اعظم نریندر مودی مہاراشٹر۔ اترپردیش سمیت لوک سبھا کی چار اور مختلف اسمبلیوں کی 10 سیٹوں پر ضمنی چناؤ کی حکمت عملی بنا رہے تھے۔ بی جے پی کے لئے ضمنی چناؤ اس لئے بھی اہمیت رکھتے تھے کہ لوک سبھا سیٹوں پر ضمنی چناؤ کے معاملہ میں اس کا حال کا ریکارڈ کوئی تشفی بخش نہیں رہا۔ پارٹی لگاتار 6 لوک سبھا سیٹوں پر ضمنی چناؤ ہار چکی تھی۔ یہ وہی سیٹیں تھیں جو 2014 میں اسے ملی تھیں۔ ان میں یوگی آدتیہ ناتھ کی طرف سے خالی کی گئی لوک سبھا سیٹ گورکھپور میں ملی غیر متوقع ہار بھی شامل ہے۔ مسلسل ملی ہار کے بعد 2014 میں 282 لوک سبھا سیٹیں جیتنے والی بی جے پی سیٹوں کی تعداد بھی کم ہوتی گئی ہے۔ لوک سبھا کی چار سیٹوں اسمبلی کی10 سیٹوں کے نتیجے بتا رہے ہیں کہ بھاجپا کے لئے ضمنی چناؤ جیتنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ بی جے پی چار سال میں 27 ضمنی چناؤ میں پانچ سیٹیں ہیں جیت سکی ہے۔ اس کے مقابلہ 9 گنوائی ہیں۔ اس کے مقابلہ 4 لوک سبھا اور 10 اسمبلی سیٹوں پر ہوئے ضمنی چناؤ کے نتیجوں سے مرکز اور آدھے سے زیادہ ریاستوں میں اپنی طاقت کے ساتھ اپنی سرکار بنانے کا بار بار ذکر کرنے والی بھاجپا کو مایوسی ضرور ہوئی ہوگی۔ ضمنی چناؤ کے نتیجے اپوزیشن اتحاد کی یکجہتی کا دم دکھاتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ مودی سرکار کے کام کاج کے طریقوں اور نتائج کو لیکر پارٹی اور ساتھیوں میں ناراضگی کا واضح اشارہ بھی دے رہے ہیں۔ نتیجے بتاتے ہیں کہ اترپردیش ، مہاراشٹر اور جھارکھنڈ جیسی ریاستوں میں جہاں بی جے پی کی سرکار ہے پارٹی کے لئے چناؤ جیتنا خاصا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ بہار میں جونیئر پارٹنر کے رول میں ہے پھر بھی وہاں جوکی ہارٹ میں جے ڈی یو کا امیدوار جیت گیا۔ یوپی کا کیرانہ ضمنی چناؤ صرف ایک سیٹ کا نہیں بلکہ حکمراں بی جے پی کی طاقت اور اپوزیشن اتحاد کا امتحان بھی تھا ۔ یعنی دیش میں 2019 کے لوک سبھا چناؤ کا سیاسی روڈ میپ بھی یہیں سے طے ہوگا۔ اس چناؤ میں دونوں بھاجپا اور اپوزیشن کے لئے وارننگ بھی ہے اور اشارہ بھی ہے ۔ جس طریقے سے مہاراشٹر میں شیو سینا نے بی جے پی کو ٹکر دی ہے اس سے صاف ہے کہ اگر بی جے پی کو 2019 میں اقتدار میں واپس آنا ہے تو اپنے ساتھیوں کو ساتھ لیکر چلنا ہوگا۔ ابھی دوسری پارٹیوں میں بھی ناراضگی ہے۔ اپوزیشن کے لئے یہ سمجھناضروری ہے کہ وہ آپسی اختلافات بھلا کر اگر2019 کے لوک سبھا چناؤ میں ون ٹو ون ٹکر دیتے ہیں تو بی جے پی کو اقتدار سے ہٹا سکتے ہیں۔ جیسا کہ کیرانہ میں ہوا۔ کیرانہ میں اپوزیشن پارٹیوں نے بڑی سمجھداری سے کام لیا۔ تبسم بیگم سماجوادی پارٹی کی امیدوار تھیں لیکن جاٹھ مسلم اور دلت ووٹوں کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ تبسم بیگم راشٹریہ لوکدل کے چناؤ نشان پر چناؤ لڑیں گی اور آر ایل ڈی ، سپا ، بسپا، کانگریس کی مشترکہ امیدوار ہوں گی اس سے ووٹ کٹنے کا امکان کم ہوگا۔ یہ حکمت عملی صحیح بھی رہی اور تبسم حسن نے بھاجپا کی امیدوار مرگانگا سنگھ کو تقریباً55 ہزار ووٹ سے ہرادیا۔ بتادیں یہ ہار بی جے پی کے لئے اس لئے بھی اہم ہے کیونکہ یہ سیٹ بھاجپا کے سینئر لیڈر حکم سنگھ کی موت کے بعد خالی ہوئی تھی۔ اسی سیٹ پر بھاجپا نے ان کی بیٹی مرگانگا سنگھ کو امیدوار بنایا تھا۔ کیرانہ کی ہار بھاجپا کیلئے بڑا پیغام لے کر آئی ہے۔ اگر سپا، بسپا کے درمیان چناؤ سے پہلے اتحاد ہوجاتا ہے جس کی کیرانہ کے بعد امید زیادہ بڑھ گئی ہے، تو ذات پات تجزیئے کے لحاظ سے اتنا طاقتور اتحاد ہے کہ بھاجپا بہت پیچھے رہ جائے گی۔ 2014 میں بھاجپا کو 72 سیٹیں ملی تھیں اگر سپا ۔بسپا مل کر چناؤلڑتیں ہیں تو بھاجپا 20سے25 سیٹوں تک سمٹ کر رہ جائے گی۔ جارکھنڈ اور بہار دونوں ریاستوں میں این ڈی اے کو ہار کا سامنا کرنا پڑا ہے۔اس سے صاف ہوجاتا ہے کہ اترپردیش ، بہار، جھارکھنڈ میں بھاجپا اور اس کی لیڈر شپ کی مقبولیت گراوٹ پر ہے۔ جنتا نے جہاں جذباتی اشوز کو مسترد کردیا ہے انہوں نے مذہب کی بنیاد پر پولارائزیشن بھی نہیں ہونے دیا۔ ایک اور بات صاف ہے 2014 میں اپوزیشن سے ٹوٹے ووٹر اس کے پاس واپس لوٹ رہے ہیں۔ لمبی مایوسی کے دور سے گزری بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس کا بھروسہ بھی گجرات اور کرناٹک کے بعد بحال ہورہا ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ اپوزیشن اتحاد بنا رہا تو 2019 میں وہ مل کر بھاجپاکو اقتدار سے ہٹا سکتی ہے۔ پنجاب میں کانگریس نے شاہ کوٹ سیٹ اکالی دل سے چھینی اور میگھالیہ میں ایک سیٹ جیت کر ریاست کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی ہے۔ اس کے علاوہ مہاراشٹر اور کرناٹک کی ایک ایک اسمبلی سیٹ بھی اس کے ہاتھ لگی ہے۔ مغربی بنگال میں موہ استھل لوک سبھا سیٹ جیت کر پی ایم سی نے وہاں اپنا جلوہ قائم رکھا ہے لیکن بی جے پی کے لئے تسلی کی بات یہ ہے کہ وہ ریاست میں لیفٹ اور کانگریس کو پیچھے چھوڑ کر دوسرے نمبر پر پہنچ رہی ہے۔ بیشک ان ضمنی چناؤ کو 2019 کے لوک سبھا چناؤ کے لئے ٹرینڈ سیٹر نہیں مانا جاسکتا لیکن بی جے پی کے لئے یہ خطرہ کی گھنٹی ضرور بج رہی ہے۔ اہم سوال یہ بھی ہے کہ محض چار سال میں ہی بھاجپا اتنی غیر مقبول کیوں ہوگئی؟ کچھ حد تک بھاجپا نیتاؤں کا غرور اور اپنے طریقہ کار کو چھوڑ کر کانگریس مکت بھارت بنانے کی ضد اس پر بھاری پڑ رہی ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ ضمنی چناؤ کے نتیجوں سے سبق لیتے ہوئے مودی سرکار بھاجپا تنظیم پالیسیوں کا بیباکی سے تجزیہ کرے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟