مودی سرکار کے چار سال

اب جب مرکز کی اقتدار میں نریندر مودی سرکار کے چار سال پورے ہوگئے ہیں اب اس کا تجزیہ کرنا فطری ہی ہے اس دوران اس نے کیا حاصل کیا۔ اس سے لوگوں کی توقعات کتنی پوری ہوئیں اور کون کون سی چنوتیاں ہیں جن کا بچے ایک سال میں اسے سامنا کرنا ہے۔ مودی سرکار جیسے زبردست اکثریت سے اقتدار میں آئی تھی اس کے چلتے اس سے جنتا کی امیدیں بھی بہت بڑھ گئی تھیں۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ جنتا کی توقعات کو بڑھانے میں خود مودی سرکار ذمہ داری ہے۔ اچھے دن کے نعرہ سے جنتا کو لگنے لگا تھا کہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ اپوزیشن نے بھی اس کو ہوا دی اور سوال پوچھنے لگے کیا آپ کے کھاتے میں 15 لاکھ روپے آگئے ہیں؟ کیونکہ توقعات کی کوئی حد نہیں ہوتی اور کئی بار اہل ہوتے ہوئے بھی عوامی توقعات پر کھرا اترنا مشکل ہوجاتا ہے۔ وزیر اعظم مودی کی قیادت میں این ڈی اے کی چار سال کے کارناموں پرایک رائے نہیں ہے۔ نوٹ بندی ، جی ایس ٹی کے بے اثر سے جنتا میں ناراضگی پیدا ہوئی ہے۔ اتار چڑھاؤ کے باوجود جی ڈی پی کی ترقی شرح 7.2 فیصد کے قریب بنے رہنا مودی سرکار کا کارنامہ مانا جاسکتا ہے۔ دیش میں غیرملکی ذخیرے میں بھی پچھلے چار برسوں میں 35 فیصد اضافہ مضبوط بنیاد کی علامت ہے۔ آج دیش میں 417 ارب ڈالر کا غیر ملکی ذخیرہ ہے جو سرکار کو یہ بھروسہ دیتا ہے کہ وہ تیل کے بڑھتے داموں کا مقابلہ کر لے گی۔ حالانکہ پیٹرول اور ڈیزل کی بے تحاشہ قیمت نے جنتا میں ہائے توبہ مچا رکھی ہے لیکن تیل کے بڑھتے داموں کے ساتھ روپے کی گرتی ہوئی قیمت سبھی کے لئے تشویش کا باعث ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں مودی سرکار نے دیش کو مضبوطی دی ہے۔ سوچھتا ابھیان، 18 گاؤں میں بجلی پہنچانا، عورتوں کے لئے اجولا جیسی گرامین یوجنا، مہلاؤں کے لئے فائدہ مند ہونا، گرام سوراج ابھیان کے ذریعے اس سے ہزاروں گاؤں میں سب سے غریب طبقے کی ترقی کا فائدہ پہنچانے کا کام کیا ہے۔ چاربرس کی حکومت کے بعد بھی وزیر اعظم نریندر مودی جیسی مقبولیت برقرار ہے اس کی مثال آسانی سے نہیں ملتی لیکن اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کئی بنیادی اصلاحات نہیں ہوسکیں ۔ جوہوئیں ان میں سے کچھ توقع کے مطابق نتیجے نہیں مل سکے۔ اس کے علاوہ سرکار کے کچھ باہمت فیصلے ناکامی کی زد میں آگئے۔ جیسے کہ نوٹ بندی۔ جموں کشمیر میں پی ڈی پی کے ساتھ اتحادی سرکار بنانے سے کشمیرکے جو حالات آج ہیں وہ پہلے کبھی نہیں تھے۔ دراصل اسی طرح کی ناکامیوں کی وجہ سے اپوزیشن حملہ آور ہے اور وہ مودی کا مقابلہ کرنے کے لئے زور آزمائش کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ بلا شبہ عہد کے آخری سال میں ہرسرکار اگلی پاری کی تیاری میں لگ جاتی ہے لیکن یہ وقت ادھوری اسکیموں کو پورا کرنے کا بھی ہوتا ہے۔ لوگوں کو بھروسہ جگانے اورپھر جیتنے کا بھی ہوتا ہے۔ دیش میں بڑھتا اقتصادی عدم توازن سیاسی اور سماجی استحکام کو ڈانواڈول کرنے کے لئے کافی ہے۔ 2017 میں دیش میں پیدا ہونے والی پراپرٹی کا 73 فیصد حصہ 1 فیصد لوگوں نے ہتھیالیا اس لئے جنتا کی نظروں میں یہ سرکار صنعتکاروں کی سرکار مانی جاتی ہے۔ اس لئے سی ایس ڈی ایس کے تازہ سروے میں وزیر اعظم نریندر مودی اور کانگریس سرکار راہل گاندھی دونوں کو پسند کرنے والے 43 فیصد لوگ ہوگئے ہیں۔ بڑھتی ناراضگی کے باوجود مودی نے اپنی سیاسی بات چیت اور سرگرمی اور مشکل محنت سے دونوں قومی سطح پر اور بین الاقوامی سطح پر اپنی پہچان مضبوط کی ہے۔ دیش کی بیرونی ممالک میں ساکھ کو مودی نے بڑھایا۔ آج دنیا کے ہر کونے میں ہندوستانیوں کو عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟