کابل دھماکہ میں شک کی سوئی پاکستان پر

بے گناہوں کا قتل اسلام میں حرام ہے خاص کر جب وہ رمضان کے مقدس مہینے میں کیا جائے۔ بدھوار کو افغانستان کی راجدھانی کابل میں خوفناک دھماکہ ہوا وہ بھی جہاد کے نام پر کیا گیا۔ کابل کے انتہائی سکیورٹی والے علاقے وزیر اکبر خاں میں جرمنی سفارتخانے کے کافی نزدیک فدائی حملہ آور نے دھماکوں سے لمبے ٹینکر کو صبح قریب 8 بنکر 30 منٹ پر اڑادیا۔ دھماکہ اتنا زبردست تھا کہ آسمان میں دھوئیں کا غبار پھیل گیا۔ دھماکہ میں بھارت ، فرانس، جرمنی اور چین و پاکستانی سفارتخانے کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے اور دروازے تک اکھڑ گئے۔ اس دھماکے میں 80 لوگوں کی جان گئی اور سینکڑوں لوگ زخمی ہوگئے۔ افغانستان میں اس برس ایک کے بعد ایک بڑے دھماکوں سے صاف ہے کہ وہاں کی سرکار اندرونی سسٹم قائم رکھنے میں ناکام ہے۔ بھارت کے لئے تشویش کی بات یہ ہے کہ سکیورٹی مفادات پر اس کا اثر پڑے گا۔ اس دھماکے میں شک کی سوئی پاکستان کی طرف گھوم رہی ہے۔ افغانستان کی خفیہ ایجنسی نے ابتدائی جانچ میں پایا ہے کہ اس دھماکے کی پلاننگ پاکستان کے حقانی نیٹ ورک اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے بنائی تھی۔ یہ بھی پایا گیا کہ علاقے میں استعمال ٹینکرکے اندر 1500 کلو گرام دھماکو سامان تھا۔ اس درمیان افغان کرکٹ بورڈ نے پاکستان کے ساتھ کھیلا جانے والا دوستانہ ٹی۔20 میچوں کی سیریز منسوخ کردی ہے۔ دیش میں جمعرات کو ایک دن کا قومی سوگ رکھا گیا۔ دنیا کا ہر قانون پبلک مقامات پر لوگوں کو نشانہ بنانے کی زور دار مخالفت کرتا رہامگرافغانی حیرت زدہ ہیں کہ آخر دہشت گرد کس مٹی کے بنے ہیں، جو رمضان کے مقدس مہینے میں بھی معصوموں کو نشانہ بناتے ہیں؟ اپنے سیاسی مفاد کے لئے دہشت گرد عام شہریوں کا قتل عام کرتے ہیں جو اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔ اسلام صاف کہتا ہے کہ ہتھیارڈال چکے کسی غیرمذہبی شخص کا بھی قتل نہ ہو۔مگردہشت گرد اس تاکید کو بھی بھول جاتے ہیں۔ انسانیت کے خلاف کھڑے آتنکی سزا کے لائق تو ہیں ہی فوج حمایتی آتنک واد کے خاتمے کی بھی ضرورت ہے۔ کابل میں ہندوستانی سفارتخانہ ہمیشہ سے ہی پاکستان کی آئی ایس آئی کے نشانے پر رہا ہے اور وہاں کئی بار پاک حمایتی آتنکی حملہ کرچکے ہیں۔ ایسے میں ایسی طاقتیں بھی ابھی سرگرم ہیں جو اس ملک کو کمزور کرنا چاہتی ہیں نہ یہ چاہتی ہیں کہ وہاں امن قائم ہو۔ دہائیوں سے بھاری مداخلت اور اندرونی اتھل پتھل کا شکار رہے افغانستان میں امن اور استحکام کیسے لایا جائے یہ آج پوری دنیا کے لئے چنوتی ہے۔ بھارت کے لئے یہ زیادہ تشویش کا موضوع ہے کیونکہ افغانستان میں بھارت کی موجودگی پاکستان کو سب سے زیادہ چبھتی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟