مودی کا دورہ روس اس لئے خاص ہے

وزیر اعظم نریندر مودی اپنے چار روزہ یوروپی ممالک کے دورہ کے تحت روس گئے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کا دورہ روس بہت اہمیت کا حامل رہا۔ بھارت اور روس کے رشتے 70 سال پرانے ہیں حالانکہ بھارت کے امریکہ کے تئیں رجحان کے چلتے پچھلے کچھ برسوں میں روس کے ساتھ رشتوں میں کھنچاؤ رہا۔ مودی کے تازہ دورہ سے ان رشتوں میں معمولی سی آئی کڑواہٹ دور ہوگی۔ جغرافیائی نقطہ نظر سے دیکھیں تو یہ ہمارے لئے اور روس کے لئے بہت ضروری تعلق ہے اس کی جو بنیاد ہے وہ یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے جو آئینی مفادات ہیں انہیں ہم اچھی طرح سے سمجھتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کی تشویشات کو سمجھتے ہیں۔ پڑوسی دیش ہونے کے ناطے اس خطے میں جو کچھ بھی ہوتا ہے، ہو رہا ہے اس کا اثر دونوں دیشوں میں دکھائی پڑتا ہے۔ مودی کا روس دورہ بیحد اہم مانا گیا کیونکہ پوتن کے ساتھ ان کی اس ملاقات کو اکتوبر میں ہی بروسیلز چوٹی کانفرنس اور پھر یہیں 17 ویں ہند۔ روس سالانہ کانفرنس میں روسی صدر کی قیادت میں مسلسل ہورہی ہیں۔پڑوسی دیش ہونے کے ناطے اس خطے میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کا اثر دونوں ملکوں میں دکھائی پڑتا ہے اسے لیکر بھارت اور روس کے درمیان لمبی بات چیت بھی جاری ہے۔ اقتصادی محاذ پر بھی بھارت اور روس ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھتے ہیں۔ روس ایک بڑا دیش ہے۔ ان کے پاس کافی وسائل ہیں، بھارت کے پاس بھی وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ایک دوسرے کی ضرورت پوری کرنے کے لئے دونوں دیشوں کے درمیان آپسی تعاون ضروری ہے۔ سینٹ پیٹرس برگ میں پی ایم مودی اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کے درمیان اکیلے میں ہوئی ملاقات اور اس کے بعد باہمی بات چیت میں رشتوں میں آئی تلخی کو کافی حد تک ختم کردیا ہے۔ فوجی اور توانائی سیکٹر میں تعاون کے نئے باب جوڑے ہیں۔ پاکستان سے بڑھ رہی روسی دوستی کو لیکر مودی نے بھارت کی پریشانیوں سے بھی واقف کرایا اور پوتن نے انہیں مسترد کرتے ہوئے کہا پاک سے روس کا فوجی تعاون معمولی ہے۔ پچھلے برس روس نے پہلی بار پاکستان کے ساتھ فوجی مشقیں کی تھیں۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ بھارت کو انتہائی جدید ترین ہتھیارو ں کی سپلائی کرتا رہے گا۔ بھارت اپنی فوجی ضرورتوں کا 30 فیصد حصہ روس سے لیتا ہے۔ یہ بھی اتفاق رائے ہوا ہے کہ یوریشیا اقتصادی فیڈریشن کے ساتھ وعدہ کاروبار سمجھوتے پر بھی بات چیت آگے بڑھائی جائے گی۔ روس و اس کے پڑوسی دیشوں سے بھارت کا باہمی کاروبار تیزی سے بڑھ سکتا ہے، جو ابھی کافی کم ہے۔ نئی اقتصادی اور فوجی ضروریات کے پیش نظر بھارت اور روس اپنی دوستی کی بنیاد مضبوط کرنے کی طرف آگے بڑھ رہے ہیں۔ روس نے بھارت میں نیوکلیائی توانائی پیدا کرنے میں مدددینے کی ٹھانی ہے تو بھارت روس کے اینرجی سیکٹر میں سانجھے دار بننے میں کافی دلچسپی لے رہا ہے۔ نئے عالمی کاروباری نظام اور فوجی ضروریات کی وجہ سے بھارت امریکہ کے نزدیک جانے کو مجبور ہوا ہے۔ وہیں روس نے اپنے ہتھیار اور انرجی صنعت کی ضرورت کے لئے پاکستان اور چین کو مدد دینے کی حکمت عملی بنائی ہے۔ اس سے دونوں کے رشتوں میں کشیدگی پیدا ہوئی ۔ مودی کے دورہ روس سے یہ کشیدگی کم ہوئی ہے اور آپسی تعاون کی گاڑی پٹری پر لوٹی ہے۔ بھارت اور روس کی دوستی کے 70 برس ہوچکے ہیں اس دوران روس بھارت کا سب سے بڑا معاون دیش رہا ہے۔ وقت کے تقاضوں نے بھارت کو امریکہ سے نزدیکی بڑھانے کو مائل کیا ہے۔ ادھرروس کا بھی چین اور پاکستان کی طرف جھکاؤ بڑھا ہے۔ بہرحال وزیر اعظم کے اس دورہ نے بھارت اور روس نے ایک بار پھر اپنے رشتوں کی اہمیت پہچانی ہے اور اس کی بنیاد مضبوط بنانے کے منصوبے باندھے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟