ٹرمپ کی داد گیری سے ماحولیاتی بحران گہرا ہوجائے گا

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس پہنچنے کے بعد سے ہی دنیا امریکہ کی امکانی خارجہ پالیسی کو لیکر الجھن میں تھی۔ ایک طرف ساری دنیا یوم عالمی ماحولیات منا رہی ہے تو دوسری طرف ٹرمپ نے پیرس آب و ہوا معاہدے کو مسترد کر یہ ظاہر کردیا ہے کہ بین الاقوامی معاملوں میں ان پربھروسہ کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ ڈیڑھ سال پہلے ہوئے پیرس میں ماحولیاتی معاہدے نے یہ یقین دہانی دی تھی کہ دنیا کی سبھی بڑی طاقتیں، یہاں تک کہ چھوٹے چھوٹے دیش بھی تپتی زمین پرراحت کیلئے چھینٹے ڈالنے کے لئے کمر کس رہے ہیں۔ اس معاہدے میں ایک طرف اگر امریکہ، چین، یوروپی یونین و ہندوستان جیسے ملک تھے تو دوسری طرف شام اور نکارہ گوا جیسے ملک بھی تھے لیکن اچانک ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ امید توڑدی۔ انہوں نے پیرس ماحولیاتی معاہدے سے امریکہ کو الگ کرنے کا اعلان کردیا۔ انہوں نے معاہدے سے الگ ہونے کی دلیل دی کہ سمجھوتے سے 2025ء تک امریکہ میں 27 لاکھ نوکریاں چلی جائیں گی۔ نوکریاں بچانے کے لئے ہمیں اس سمجھوتے سے ہٹنا ہوگا۔ امریکہ کے الگ ہونے کے اعلان سے ڈیڑھ سال پرانے ماحولیاتی معاہدے پر ہی اندیشات کے بادل نہیں منڈرائے بلکہ دو دہائی سے زیادہ ڈپلومیٹک کوششوں کا وہ سلسلہ بھی خطرے میں پڑ گیا جس نے ایسے کسی معاہدے پر پہنچنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا تھا۔ آب و ہوا تحفظ کو لیکر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دقیانوس نظریئے کا تجزیہ اب صرف آنے والی پیڑھیاں کریں گی کیونکہ وہ ہی سمندری پانی کی سطح بڑھنے اور سنگین سوکھے سے متاثر ہوگی۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے کاربن ایندھن سے ہونے والے اخراج کو سنجیدگی سے نہیں لیا تو پھر ہمیں سیلاب اور سوکھے سے متاثر مستقبل کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ البتہ اب یہ پوری طرح سے صاف ہوگیا ہے کہ راشٹرپتی ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیاں امریکہ کے دوست ممالک کے لئے کافی مایوس کن ہیں۔ امریکہ کے ایک کاروباری طبقے کے لئے چھلاوا ہے۔ اہمیت ترین صنعتوں میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے و امریکہ کی مقابلہ جاتی دوڑ کیلئے بڑا خطرہ ہے اور عالمی اہمیت کے اشوز پر امریکہ کی قیادت سے متعلق داؤں کو فلیتا لگانے والی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ امریکہ کو چھوڑ کر دنیا کے باقی دیش ابھی بھی اپنے عہد پر قائم ہیں۔ انہیں ابھی بھی یقین ہے کہ وہ زمین کے بڑھتے درجہ حرارت میں دو ڈگری سیلسیس تک کی کمی لائیں گے لیکن اس سے آب و ہوا تبدیلی کے مضر اثرات سے بچنا اس لئے مشکل ہوسکتا ہے کیونکہ ایک تو امریکہ ماحولیات کے لئے نقصاندہ گیسوں کے اخراج کے معاملے میں آگے آگے ہے اور دوسری طرف تبدیلی ہوا سے نمٹنے کیلئے ضروری قدم اٹھانے میں پہلے ہی دیر ہوچکی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟