کٹرپسند سنی آتنکی تنظیم آئی ایس کا ایران میں حملہ
ایران میں 38 سال پہلے آئے 1979 ء کے انقلاب کے بعد بدھ کو پہلی بار بڑا دہشت گردانہ حملہ ہوا۔ دنیا کی سب سے خونخوار مانی جانے والی کٹر سنی دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس) نے بدھوار کو ایک ساتھ ایران کی پارلیمنٹ اور مذہبی پیشوا آیت اللہ خمینی کے مقبرے پر حملہ کرکے اسلامک اسٹیٹ نے ایران میں بھی اپنی موجودگی درج کرادی ہے۔ چار حملہ آور فائرننگ کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں گھس گئے۔ سکیورٹی فورسز نے قریب ایک گھنٹے کی جدوجہد کے بعد چاروں آتنک وادیوں کو مار گرایا۔ جب پارلیمنٹ پر حملہ ہو رہا تھا تبھی خمینی کے مزار پر تین دیگر آتنک وادیوں نے حملہ کیا۔ ایک خاتون آتنکی نے کمر میں بندھے دھماکو سے خود کو اڑا لیا۔خمینی کے مزارپر بڑا دھماکہ ہوا ان حملوں میں 12 افراد ہلاک ہوگئے جبکہ 42 زخمی ہوئے۔ دو آتنک وادیوں کو زندہ پکڑ لیا گیا لیکن ان میں سے ایک نے سائنائڈ کھا کر خودکشی کرلی۔ پہلی بار آیت اللہ خمینی کے مقبرے کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ شیعہ مذہبی پیشوا آیت اللہ خمینی نے ہی 1979ء ایران انقلاب کی قیادت کی تھی جس میں ایران سے راج شاہی ختم ہوئی تھی اور شاہ رضا پہلوی کودیش چھوڑنا پڑا تھا۔ اس کے بعد سے ایران میں شیعہ حکومت قائم ہے۔ بیشک یہ حملے مانچسٹر اور پھر لندن برج پر ہوئے حملوں کے ٹھیک بعد ہوئے ہیں ، اس لئے انہیں اسلامک اسٹیٹ کی بڑھتی عالمگیر سطح پر سرگرمی سے جوڑ کر دیکھا جائے گا، لیکن ایران میں آتنکی حملے کا اسلامک اسٹیٹ کے لئے الگ ہی مطلب ہے۔ یہ ٹھیک ہے مغربی دیشوں سمیت دنیا کی کئی طاقتیں اسلامک اسٹیٹ سے لوہا لینے کا دعوی کررہی ہیں لیکن اس کے خلاف سب سے زیادہ سرگرم ایران ہی ہے۔ ایک طرف وہ شام میں اسد کی شیعہ سرکار کو آئی ایس کے خلاف لڑائی میں سیدھی حمایت دے رہا ہے ،تو دوسری طرف کہا جاتا ہے کہ اس نے ایک شیعہ ملیشیاکھڑی کردی ہے۔ اس انتہا پسند تنظیم کا ایک ہی مقصد ہے ایران میں شیعہ آبادی کو تحفظ دینا اور آئی ایس کے دانت کھٹے کرتے رہنا۔ قطر کو لیکر ان دنوں مغربی ایشیا میں جو سیاست رہی ہے اس کا تہران میں بدھ کے روز آتنکی حملے کا بھلے ہی کوئی سیدھا تعلق نہ ہو ، لیکن یہ دونوں چیزیں مل کر ایک ہی بات بتاتی ہیں کہ خلیج کے ملکوں کا مسئلہ لگاتار الجھتا اور پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔ امریکہ کے صدر کے حالیہ سعودی عرب دورہ میں ایران کو کوسنا بھی اسی کڑی سے جڑتا ہے۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ ادھر ٹرمپ ایران کو نشانہ بناتا ہے ادھر اسلامک اسٹیٹ ایران پر آتنکی حملہ کردیتا ہے؟ کچھ وقت پہلے جب مغربی ملکوں نے ایران کا بائیکاٹ ختم کیا تھا تو ایک امید بنی تھی کہ پرانے جھگڑے ختم ہوں سے کئی تجزیئے بدلیں لیکن ٹرمپ کے تازہ موقف نے ان پر پانی پھیر دیا ہے۔ سعودی عرب تو پہلے سے ہی ایران کو اپنی راج شاہی کے لئے دشمن نمبر ون مانتا ہے اور یہی امریکہ کی دوہری پالیسی ہے۔ امریکہ یہ نہیں طے کرپا رہا ہے کہ اس کی پہلی ترجیح اسلامک اسٹیٹ کو ختم کرنے کی ہے یا شام میں اسد حکومت کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی تھی۔ آج تلخ حقیقت یہ ہے کہ اسلامک اسٹیٹ اس وقت پوری دنیا کے لئے خطرہ بن چکا ہے۔ یہ سوچنا غلط ہے کہ ایران خود اس سے نمٹیں ۔ آئی ایس کو مددکون کررہا ہے ؟ یہی عرب دیش اس کی فنڈنگ کے سب سے بڑے ذرائع ہیں۔ دکھ اس بات کا بھی ہے کہ کئی اسلامی دیش آئی ایس کے خلاف کھڑے ہونے کے بجائے اپنے اپنے تنگ ذاتی مفادات کی تکمیل کے لئے ایک دوسرے کے خلاف کھڑے زیادہ دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر مغربی ایشیا میں ایک طرف ایران اور امریکہ دوسری طرف روس اور امریکہ ایک دوسرے کے خلاف کھڑے دکھائی دیتے ہیں تو اس سے صرف اسلامک اسٹیٹ کو فائدہ ہوگا اور ہو رہا ہے۔ شیعہ ۔سنی لڑائی تو ہزاروں سال پرانی ہے ۔ تہران میں آتنکی حملہ اسی کی ایک توجہ ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ سبھی دیش مل کر سانجھہ حکمت عملی کے ساتھ آئی ایس سے ٹکر لیں اور جب تک یہ نہیں ہوگا نہ لندن محفوظ ہے اور نہ ہی فرانس، جرمنی اور مشرقی وسطی۔ حملے سے ایران جو اپنی سخت سکیورٹی پر فخرکرتا تھا اس کی بھی ایک طرح سے پول کھل گئی ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں