کیاجی ایس ٹی نافذ کرنے کا ہوم ورک پورا کرلیاگیاہے

وزیر اعظم نریندر مودی نے نئی غیر بالواسطہ ٹیکس سسٹم گڈس اینڈ سروسز ٹیکس (جی ایس ٹی) پر عمل درآمد کی تیاریوں کا جائزہ لیا ہے اور کہا کہ اس پر عمل سے دیش کی معیشت کیلئے فیصلہ کن موڑ ثابت ہوگا۔ دیش کی تاریخ میں اسے ایک غیر معمولی موقعہ قراردیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ایک قوم اور ایک بازار و ایک ٹیکس سسٹم کا ڈیولپمنٹ دیش کے عام شہری کے لئے بڑا فائدے کا ہوگا لیکن سوال یہاں یہ ہے کیا اس کے لئے ضروری ہوم ورک کیا جاچکا ہے ؟ کیا سبھی تیاریاں پوری ہوچکی ہیں؟ اس غیر بالواسطہ ٹیکس کے اس نئے نظام کو نافذ کرنے میں اب چند دن ہی بچے ہیں۔ اس درمیان انڈین بینک ایسوسی ایشن (آئی بی اے) نے اسے نافذ کرنے کی تیاریاں نہ ہونے کا حوالہ دے کر سرکار کے سامنے ایک بڑی چنوتی کھڑی کردی ہے۔ آئی بی اے بینکوں کے طریقہ کار سسٹم میں تبدیلی کی کارروائی پوری نہ ہونے کی جو دلیل دے رہا ہے اسے صرف مضحکہ خیز ہی کہا جاسکتا ہے۔ بینکوں کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ جی ایس ٹی سسٹم کو نافذ کرنے کی قواعد برسوں سے جاری ہے۔ یہ اشو سرکار کیساکھ کا سوال بن گیا ہے۔ دوسری طرف بھاجپا ایم پی ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے موجودہ اقتصادی حالات کو جی ایس ٹی لاگو کرنے کے لئے نامعقول قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے میں جی ایس ٹی کو دو سال کے لئے ٹال دیا جانا چاہئے ورنہ مودی سرکار کے لئے یہ واٹر لو ثابت ہوگا۔ سوامی نے جی ایس ٹی کولیکر اپنے خیالات ٹوئٹر پر شیئرکرتے ہوئے اس سلسلے میں دنیا کے مشہور اس واٹر لو اشو کی مثال دی ہے جس میں ونر مانے جانے والے فرانس کے راجا نے نیپولین بونا پاٹ کو آخر کار شکست خوار ہونا پڑا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جی ایس ٹی کے بارے میں ایک مہینے پہلے ہی انہوں نے وزیر اعظم کو 16 صفحات کا خط لکھا تھا جس میں معیشت اور جی ڈی پی شرح میں گراوٹ کے 6 خطرناک پہلوؤں کا ذکر کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اب بھی ان کا یہی خیال ہے کہ موجودہ اقتصادی حالات اور مغربی بنگال کے وزیر مالیات امت مترا کی ان تجاویز کو دھیان میں رکھتے ہوئے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ جی ایس ٹی کو فوراً منظور کرنا مشکل ہوگا، کیونکہ اسے لیکر صنعتوں کی تیاری پوری نہیں ہو پائی ہے اور ضروری نیٹ ورک کا سروس فراہم کرنے والوں کی جانب سے پورا تجربہ بھی نہیں کیا گیا ہے۔ جی ایس ٹی کو یکم جولائی 2019ء تک کے لئے ٹال دیا جانا چاہئے ورنہ یہ سرکار کے لئے واٹر لو ثابت ہوگا۔ جی ایس ٹی کے بارے میں سوامی کا یہ تبصرہ جی ڈی پی کے تازہ اعدادو شمار کے پس منظر میں آیا ہے۔ ان اعدادو شمار میں ایسا اشارہ دیا گیا ہے کہ نوٹ بندی کے سبب معیشت کی رفتار دھیمی پڑی ہے۔ گذشتہ بدھوار کو جاری جی ڈی پی کے اعدادو شمار کے مطابق مارچ 2017ء میں ختم چوتھی سہ ماہی کے دوران جی ڈی پی گھٹ کر 6.1 فیصدی رہ گئی جبکہ پچھلے کی اسی سہ ماہی میں یہ 7 فیصدی ہوا کرتی تھی۔ جی ایس ٹی نافذ ہونے کے بعد مارکیٹ کس طرح ردعمل کرتی ہے یہ آج بھی نہیں کہا جاسکتا۔ کچھ مہینے تو اتنا کنفیوژن ہوگا کہ سمجھ میں نہیں آئے گا کہ کس چیز کی کیا قیمت ہوگی؟ اس میں کچھ اجناس کے دام بڑھیں گے تو کچھ کے گھٹنے کی امید ہے۔ جی ایس ٹی نافذ ہونے کے بعد کپڑا، سامان خا ص طور سے سوتی دھاگے اور فیبرک والے کپڑے مہنگے ہوجائیں گے۔ صنعتی دنیا کے ایک طبقے کا خیال ہے کہ سوتی اور سنتھیٹک فائبر کے لئے ٹیکس شرحوں میںیکسانیت کی تشریح سے متعلق اشو پیدا ہوں گے۔ فی الحال سبھی طرح کی سروسز پر قریب 15 فیصد ٹیکس لگتا ہے جبکہ اب زیادہ تر سروسز پر 18 فیصد جی ایس ڈی لاگو ہوگا۔ اسکول فیس، کوریئر، موبائل چارج، بیمہ پریمیم، وائی فائی، ڈی ٹی ایچ جیسی کئی ضروری خدمات مہنگی ہوجائیں گی۔ بیشک کچھ چیزیں سستی بھی ہوں گی لیکن عام طور پر مانا جارہا ہے کہ جی ایس ٹی سے مہنگائی بڑھے گی اس لئے سرکار کو اپنا ہوم ورک اچھے سے کرلینا چاہئے نوٹ بندی کی طرح جی ایس ٹی لانے میں جلدی نہیں کرنی چاہئے۔ دیش ابھی نوٹ بندی کی مار سے نہیں نکل پایا ہے کہ جی ایس ٹی کی مار پڑ گئی تو جنتا کی کمر ٹوٹ جائے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!