ایران سے نزدیکی قطر کو بھاری پڑی
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات ،بحرین اور مصر ان چاروں ملکوں نے اچانک جس طرح قطر سے سبھی سفارتی اور ٹرانسپورٹ سے متعلق تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا ہے وہ بحران سے گھرے اس علاقے کیلئے ایک اور نئے بحران کی شروعات ہوسکتا ہے۔ ان دیشوں نے ایسا کرنے کے پیچھے دلیل دی ہے کہ قطر مسلم برادر ہڈ، القاعدہ اور آئی ایس جیسی دہشت گرد تنظیم اور کٹر پسند گروپوں کی مدد کررہا ہے۔ اور اس کے اس رویئے سے پورے خطے میں بے چینی کے حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔ جنہوں نے قطر کو کٹہرے میں کھڑا کیا ہے ان کا بھی دامن پاک صاف نہیں کہا جاسکتا۔ دراصل خلیج کے زیادہ تر ممالک اپنی اپنی پسند کے کٹر پسند اور دہشت گرد گروپوں کی مدد کرتے رہے ہیں۔ مثلاً شام میں سلفی گروپوں کو سعودی عرب سے مدد ملتی رہی ہے تو اسلامی برادر ہڈ کو ہتھیار بند تنظیم کو قطر سے۔ دہشت گردی کو حمایت دینے کے الزام میں قطر کے خلاف مورچہ بندی کا رہنما بنا سعودی عرب خود بھی دہشت گرد تنظیموں کی مدد کرنے کے الزامات سے گھرا ہوا ہے۔ خود امریکی اور برطانوی جانچ ایجنسیوں کی نظر میں اس کا رول بھی مشتبہ ہے، جن سے وہ بڑے پیمانے پر ہتھیار خریدتا ہے۔ برٹش امریکن سکیورٹی انفورمیشن کونسل کے سینئر ایڈوائزر ڈاکٹر یوسف بٹ کے مطابق پچھلی تین دہائیوں میں سعودی عرب سے غریب مسلم دیشوں میں کٹرپسند وہابی اسلام کو بڑھانے کے لئے 100 ارب ڈالر سے زیادہ رقم خرچ کی گئی ہے۔ سال 2010 میں وکی لکس نے اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اور امریکی سفارتکاروں کے درمیان ہوئی بات چیت کے خفیہ دستاویز عام کئے تھے۔ 2009ء میں اپنے سفرا کو لکھا تھا کہ القاعدہ ،طالبان ، لشکر طیبہ کے لئے سعودی عرب مالی مدد کی اہم بنیاد بنا ہوا ہے۔ ان چاروں ملکوں کی ناراضگی کچھ اسلامی گروپوں کو قطر کی طرف سے مل رہی حمایت کو لیکر ہے۔ قطر اس کی تردید کرتا آرہا ہے، لیکن مصر اور کچھ دیگر دیشوں میں سرگرم مسلم برادر ہڈ سے ان کی قریبی دنیا جانتی ہے۔ سعودی عرب کی سب سے بڑی پریشانی یہی ہے کہ سنی تنظیم برادر ہڈ زیادہ تر عرب دیشوں میں موجود خاندانی حکومت یا راج شاہی کی کھل کر مخالفت کرتی ہے۔ سعودی عرب کا شاہی ابھی پرانی پیڑھی سے نئی پیڑھی کو اقدار سونپنے کے عمل میں ہے۔ ایسے میں مسلم برادر ہڈ کا پھیلاؤ اسے اپنے لئے کچھ زیادہ ہی خطرناک لگ رہا ہے۔ بہرحال ، دہشت گردی کی کئی شکلوں سے متاثر اس خطے میں سنیوں کا آپسی ٹکراؤ پہلی بار سطح پر دکھائی دے رہا ہے۔ آتنکی کٹر پسند تنظیموں کے نام نہاد مدد گار قطر تھے۔خلیجی عرب ملکوں سے الگ تھلگ پڑنے والے قطر کی ایک بڑی وجہ اس کی ایران سے قربت بڑھانے کی بھی ہے۔ قطر سے سفارتی رشتے توڑنے کا اعلان ایسے وقت میں کیا ہے اس سے پہلے27 مئی کو قطر کے حکمراں امیر بن حماد علی تھانی نے ایران کے صدر حسن روحانی کو فون کیا تھا۔ تھانی نے روحانی کو فون دوبارہ صدر منتخب ہونے پر مبارکباد دینے کیلئے کیا تھا۔ یہ صاف طور پر سنی حکومت سعودی عرب کی خواہشات کے برعکس تھا۔ وہ شیعہ حکمراں ایران کو اپنا اول دشمن اور خطے کے استحکام کیلئے خطرہ مانتا ہے۔ وہ ایران کے خلاف قطر کو اپنی پوزیشن کے مطابق دیکھنا چاہتا ہے۔ قطر سے رشتے توڑنے والے دیشوں کے شہریوں کے لئے قطر کا سفر کرنے ،وہا ں رہنے یا اس سے ہوکر گزرنے پر پابندی ہوگی۔ ان دیشوں کے لوگ قطر میں رہ رہے ہیں انہیں 14 دن کے اندر قطر چھوڑنا ہوگا۔ حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے خارجی دورہ کیلئے سعودی عرب کو چنا تھا۔ ٹرمپ کے ایران مخالف تیوروں سے بھی سعودی عرب کا حوصلہ بڑھا ہوگا۔ اب ٹرمپ بھلے ہی خلیجی ملکوں کو آپسی اختلافات دور کرنے کی نصیحت دے رہے ہوں لیکن ان کے ایران مخالف ایجنڈے کا ماحول بگاڑنے میں کم اشتراک نہیں ہے۔ دنیا کے باقی دیش اس ٹکراؤ میں کس حد تک کس کا ساتھ دیں گے یہ ابھی طے نہیں ہے لیکن قطر نے جھکنے کے کوئی اشارے نہیں دئے ہیں۔ نیچرل گیس اور تیل ذخائر کے معاملے میں دنیا میں تیسرا مقام رکھنے والا یہ چھوٹا سا دیش فی شخص آمدنی کے معاملے میں پوری دنیا میں نمبر ون ہے۔ اسے جھکانا آسان نہیں ہوگا۔ امید کی جاتی ہے یہ بحران جلد حل کر لیا جائے گا نہیں تو پوری دنیا پر اس کا برا اثر پڑ سکتا ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں