کانگریس کا گرتا گراف دیش کے مفاد میں نہیں ہے

مودی سرکار کے تین برس پورے ہونے پر کانگریس نے بھلے ہی زبانی جنگ تیز کردی ہو لیکن وہ 2014 ء میں لگے مودی گرہن سے نہیں نکل پا رہی ہے اور اس کے ہاتھ سے ایک کے بعد ایک ریاستیں چھنتی جارہی ہیں اور کانگریس پارٹی مسلسل سکڑتی جارہی ہے۔ اس سے پارٹی کے مستقبل پر تو سوالیہ نشان لگتا ہی ہے ساتھ ساتھ دیش کے لئے یہ اچھا اشارہ بھی نہیں ہے۔ ایک اچھی جمہوریت کے لئے اگر مضبوط حکمراں فریق چاہئے تو اتنا مضبوط اپوزیشن بھی چاہئے۔ اگر اپوزیشن کمزور اور بے اثر ہوگی تو حکمراں فریق اپنی منمانی کرے گا۔ فی الحال کانگریس کے گرتے گراف پر روک لگانے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا ہے۔ تین برس پہلے قومی سیاست میں مسٹر نریندر مودی کے نزول کے بعد سے کانگریس کے زوال کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ ابھی تک جاری ہے اور دیش میں جو ماحول ہے اس سے نہیں لگتا کہ اس پر جلد روک لگنے والی ہے۔ کانگریس کو بھی اس کا احساس ہونے لگا ہے اس لئے وہ اکیلاچلو کی اپنی پرانی پالیسی کو چھوڑ کر ریاستوں اور قومی سطح پر غیر بھاجپا سیکولر پارٹیوں سے ہاتھ ملانے کی کوششوں میں لگ گئی ہے۔ دیش میں 60 برس سے زیادہ حکومت کرنے والی کانگریس کو پچھلے لوک سبھا چناؤ میں ایسا مودی گرہن لگا کہ ایک کے بعد ایک چناؤ میں اسے شکست ملتی رہی ہے اور وہ سمٹتی جارہی ہے۔عام چناؤ میں وہ 543 میں سے صرف44 سیٹیں ہی جیت پائے تھی جس کے سبب اسے اپوزیشن کے لیڈر کا عہدہ بھی نہیں مل سکا۔ وہ پچھلے تین برس میں صرف ایک ریاست (پنجاب) میں برسر اقتدار آئی لیکن اس کے ساتھ ہوئے اترپردیش، اتراکھنڈ کے چناؤ میں زبردست ہار اور منی پور، گووا میں بڑی پارٹی ہونے کے باوجود سرکار نہیں بنا سکنے کے جھٹکے کے چلتے وہ اس جیت کا جشن نہیں منا سکی۔ دہلی میں لگاتار 15 سال تک حکومت کرنے والی دیش کی سب سے پرانی کانگریس پارٹی کا یہاں سے آج ایک بھی ایم پی یا ایم ایل اے نہیں ہے۔ پچھلے تین برسوں میں سبھی ریاستوں کے اسمبلی چناؤ میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پچھلے عام چناؤ کے وقت کانگریس کی 11 ریاستوں میں حکومت ہوا کرتی تھی اس وقت وہ صرف 5 ریاستوں کرناٹک، پنجاب، ہماچل، میگھالیہ ،میزورم اور مرکزی زیر انتظام ریاست پڈوچیری میں اس کی سرکار ہے۔ بہار میں مہا گٹھ بندھن کی سرکار میں وہ شامل ہے۔ شری مودی کی مقبولیت کی بنیاد پر بھاجپا نے مہاراشٹر اور ہریانہ اور آسام جیسے کانگریس کے گڑھ کو مسمار کردیا ہے۔ آسام میں بھی مسلسل چناؤ جیتنے والی کانگریس کو زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ چناوی ہار کے ساتھ ساتھ کانگریس کو بغاوت کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بیشک اس کے چلتے اروناچل پردیش میں اسے اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا ۔ اترا کھنڈ میں بھی حالات ویسے ہی بن گئے تھے لیکن سپریم کورٹ نے اس کی سرکار بچا لی تھی وہاں حال ہی میں ہوئے چناؤ میں بھاجپا نے اسے دھول چٹا دی۔ اسمبلی چناؤ ہی نہیں مقامی بلدیاتی چناؤ میں بھی کانگریس کی ناقص کارکردگی کا سلسلہ جاری ہے۔ مہاراشٹر، اڑیسہ اور دہلی کے بلدیاتی چناؤ میں وہ بری طرح شکست خوار ہوئی۔ اڑیسہ میں بھاجپا اسے پچھاڑ کر دوسرے مقام پر آگئی ہے۔ ممبئی مہا نگر پالیکا چناؤ میں بھاجپا چوتھے مقام پر رہی۔ دہلی میونسپل کارپوریشن کے چناؤ میں وہ بھاجپا اور عام آدمی پارٹی کے بعد تیسرے مقام پر رہی۔ تلنگانہ کے مکھیہ منتری چندر شیکھر راؤ کو پریوار واد کی سیاست کرنے پر گھیرنے کے لئے کانگریس صدر نے کہا ہے تلنگانہ سرکار کی پوری سیاست کے سی آر اور اس کے پریوار کے ارد گرد گھومتی ہے۔ بیشک یہ صحیح ہے لیکن یہ ہی سوال کانگریس سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ نہرو گاندھی پریوار کے ارد گرد گھومنے والی کانگریس دوسروں پر یہ الزام لگائے تو صحیح نہیں ہے۔ اصلی حالت یہی ہے کہ آج کانگریس لیڈر شپ کی بھاری کمی ہے اور کوئی نیتا ایسا نہیں جو کانگریس کو اس دلدل سے نکال سکے۔ حقیقت میں گاندھی پریوار نے پچھلے29 سالوں میں کوئی کرسی نہیں سنبھالی ہے وہ اقتدار سے باہرہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ کانگریس محاسبہ کرے اور پارٹی کو صحیح لیڈر شپ و سمت فراہم کرے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟