سرجیکل اسٹرائک پر شک ہے توخود جاکر دیکھتے کیوں نہیں

سیاست کرنے کی بھی کوئی حد ہونی چاہئے۔ ہم یہ تو سمجھ سکتے ہیں کہ آپ کے وزیر اعظم نریندر مودی سے بھاجپا سے اور سرکار و پارٹیوں کی پالیسیوں سے اختلافات ہیں اور آپ کو ان کی تنقید کرنے کا بھی ہماری جمہوریت میں پورا اختیار ہے لیکن جب آپ ہندوستانی فوج پر ہی سوال اٹھانے لگیں اور انہیں جھٹلانے لگیں تو آپ نہ صرف قومی مفادات کے خلا ف بات کررہے ہیں بلکہ آپ ہمارے بہادر جوانوں جو دن رات سکیورٹی کے لئے بلیدان دے رہے ہیں ان کا حوصلہ توڑنے کا کام کررہے ہیں۔ جب بھارتیہ فوج کے ڈی جی ایم او کہہ رہے ہیں کہ ہم نے پاکستان میں سرجیکل اسٹرائک کیا ہے تو یہ ماننا پڑے گا اور یہ فائنل ہے۔ آپ اب فوج سے ہی ثبوت مانگ رہے ہیں فوج نے سرجیکل اسٹرائک کی پوری ویڈیو گرافی کی ہے۔ قریب 90 منٹ کا یہ ویڈیوفوج نے سرکار کو دے دیا ہے لیکن سرکار نے صحیح فیصلہ کیا ہے کہ اس ویڈیو کو پبلک کرنا دیش کے مفاد میں نہیں ہے۔ ہوا میں یوں ہر بات کا ثبوت مانگنا ٹھیک نہیں ہے۔ بھارت کی جانب سے ایل او سی کے پار پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں سرجیکل اسٹرائک کئے جانے کے مرکزی سرکار کے پاس تین ذرائع سے بھیجے گئے سرجیکل اسٹرائک کے ثبوت موجود ہیں۔ ذرائع کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ پی او کے میں ہندوستانی فوج کی طرف سے انجام دئے گئے سرجیکل اسٹرائک کے یو اے بی ڈرون سے لئے گئے ثبوت ہیں۔ یو اے وی کے ذریعے اس کارروائی کا ویڈیو سرکار کے پاس ہے۔ دوسرا ثبوت یہ ہے کہ سیٹیلائٹ کے ذریعے بھی اس سرجیکل اسٹرائک کا ویڈیو بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سرجیکل اسٹرائک کو انجام دینے کے وقت ہندوستانی فوجیوں نے جو ہیلمٹ پہنے تھے اس پر لگے کیمرے سے بھی کارروائی کی ریکارڈنگ کی گئی ہے جو ثبوت کے طور پر مرکزی حکومت کے پاس موجود ہے۔ پاکستان کی آتنکی تنظیموں کے ٹھکانوں پر فوج کی سرجیکل اسٹرائک کے ان ثبوتوں کے بارے میں خفیہ ایجنسیوں و سرکار کا یہ تجزیہ صحیح ہے، مناسب ہے کہ فی الحال انہیں پبلک کرنا دیش کے مفاد میں نہیں ہے۔ ایک تو فوج کی حکمت عملی راز میں رکھنے کے لئے ایسا ضروری ہے اور دوسرے اس لئے بھی کہ اس طرح کے آپریشن کو عام نہ کرنے کی ایک غیر تحریری روایت ہے۔ جب امریکہ کی نیوی سیلس کے جوانوں نے ایبٹ آباد (پاکستان) میں گھس کر اسامہ بن لادن کو مارا تھا تو کیا سرجیکل اسٹرائک کی تفصیلات کا ویڈیو آج تک پبلک نہیں کیا۔ امریکہ کی عوام یا سیاست دانوں نے اپنے صدر نیوی سیلس کی کارروائی پر شبہ تک ظاہر نہیں کیا تھا اور نہ ہی آج تک آپریشن کی تفصیلات دی گئی ہیں۔آج تک امریکی حکومت نے ان کو سامنے نہیں کیا کہ اس آپریشن میں کتنے نیوی جوانوں نے حصہ لیا تھا، ان کے نام کیا ہیں؟ آج کے جدید دور میں کچھ بھی نہیں چھپ سکتا۔ سرجیکل اسٹرائک پر جاری سیاست اور اسے لیکر اٹھے سوالوں کے درمیان انگریزی اخبار ’دی انڈین ایکسپریس‘ نے بڑا خلاصہ کیا ہے۔ اخبار میں شائع رپورٹ میں کنٹرول لائن پار رہنے والے چشم دید نے پچھلے ہفتے آتنکی کیمپوں پر ہوئی ہندوستانی فوج کی سرجیکل اسٹرائک کا آنکھوں دیکھا حال بتایا ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ کس طرح سرجیکل اسٹرائک میں مارے گئے آتنک وادیوں کی لاشوں کو29 ستمبر کو صبح سویرے ٹرکوں میں بھر کر لے جایا گیا۔ چشم دید کے مطابق کم وقت میں ہوئی فوج کی تابڑ توڑ فائرنگ میں آتنکی کیمپ نیست و نابود ہوگئے اور ان عینی شاہدین کے بیان سے ہندوستانی فوج کی سرجیکل اسٹرائک پر سوال اٹھا رہے پاکستان اور ہمارے دیش کے کچھ سیاسی نیتا بے نقاب ہوگئے ہیں۔ چشم دید نے اسٹرائک کے دوران نشانہ بنائی گئی کچھ ایسی جگہوں کے بارے میں بھی بتایا ہے جنہیں بھارت اور پاک کی طرف سے بھی پبلک نہیں کیا گیا۔ کہا جارہا ہے سرجیکل اسٹرائک پہلے بھی ہوتے رہے ہیں لیکن اس سے پہلے فوج یا حکومت نے کئی اسباب کے سبب ان کا خلاصہ نہیں کیا۔ اسی طرح میانمار میں کی گئی فوجی کارروائی کے ثبوت بھی سامنے نہیں لائے گا۔ سرجیکل اسٹرائک کے ثبوت مانگنا سیاسی شرارت تو ہے ہی سرکار اور فوج کی توجہ ہٹانے اور ان کو بدنام کرنے کی حرکت بھی ہے۔ یہ ایک طرح سے ضروری بھی تھا کہ وزیر اعظم نے بھاجپا نیتاؤں کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ فوج کی کارروائی کے معاملے میں زیادہ بڑبولا پن نہ دکھائیں اور اس معاملے میں چنندہ لوگ ہی اپنی بات رکھیں۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ آج کانگریسی نیتا سنجے نروپم ثبوت کی بات کررہے ہیں جبکہ ڈی جی ایم او نے اعلان کیا تھا کہ ہندوستانی فوج نے ایل او سی کے پار سرجیکل اسٹرائک کیا ہے تو سب سے پہلے سونیا گاندھی کی رہنمائی میں پوری کانگریس نے سرکار اور فوج کی حمایت کی تھی۔ آج انہیں کی پارٹی کے ایک چھٹ بھیا نیتا سوال اٹھا رہے ہیں؟ ایسی سرجیکل اسٹرائک مستقبل میں بھی ہوسکتی ہے۔ اگر آئی بی کی رپورٹ کے مطابق 100 دہشت گرد گھس پیٹھ کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ ہندوستانی سکیورٹی ایجنسیوں کے پاس پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں چل رہے 42 آتنکی ٹریننگ کیمپوں کی پختہ جانکاری اور نقشہ ہے۔ ان میں سے 18 کیمپ زیادہ سرگرم ہیں۔ 14 لانچنگ پیڈ ان دنوں سرگرم ہیں۔ کیا ہر بار سرکاراور فوج کو اٹیک کا ثبوت دینا پڑے گا؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟