ہرسال0 9260 کروڑ کی غذائی پیداوار کی بربادی

اکثر ہم سے کہا جاتا ہے کہ کھانا برباد ہونے سے بچائیں۔ ہمیں ان بچوں کے بارے میں سوچنے کو کہا جاتا ہے جو ہر دن بھوک سے تڑپ کر مر جاتے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ بھارت ہر دن کھانے لائق غذا تو پیدا کرتا ہے لیکن پھر بھی لاکھوں لوگ بھوکے سونے کو مجبور ہیں۔ ایک سرکاری اسٹڈی میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بھارت میں ہر برس 70 لاکھ ٹن کھانا برباد ہوتا ہے۔ وزارت زراعت کی فصل تحقیقی یونٹ سیفیٹ نے یہ اسٹڈی کی ہے۔ بھارت میں ہر سال جتنا کھانا برباد ہوتا ہے وہ برطانیہ کی قومی پیداوار سے زیادہ ہے۔ اتنا کھانا تو مصر جیسے دیش کے لئے سال بھر کے لئے کافی ہوتا ہے۔ یہ اسٹڈی دیش میں 14 ویں ایگری کلچرل زون کے 120 ضلعوں میں کی گئی ہے۔ اس کے مطابق برباد ہوئے کھانے کی قیمت 92 ہزار کروڑ روپے بتائی جاتی ہے۔ یہ رقم بھارت سرکار کے ذریعے نیشنل فوڈ سکیورٹی پروگرام کے تحت خرچ کی جانے والی رقم کی دو تہائی ہے۔ اسٹڈی کے مطابق پھل ، سبزیاں اور دالیں سب سے زیادہ بربادہوئی ہیں۔ اس کے مطابق غذائیت کا سڑنا ،کیڑے پڑنا اور موسم کی خرابی اور اسٹوروں کی کمی بربادی کی سب سے بڑی وجوہات ہیں۔ فصلوں کی بات کریں تو 10 لاکھ ٹن پیاز کھیتوں سے مارکیٹ آنے کے دوران راستے میں برباد ہوگئی۔ 22 لاکھ ٹن ٹماٹر بھی راستے میں خراب ہوگئے۔ اس بربادی کو روکنے کیلئے کولڈ اسٹوریج بنانے اور کسانوں کو ٹریننگ دینے پر بھی زور دیا گیا ہے۔ اسٹڈی کے مطابق ہر آپریشن اور اسٹیج میں کچھ نہ کچھ نقصان ہوتا ہے۔ اس طرح ذرعی پیداوار کی بڑی مقدار تھالی تک نہیں پہنچ پاتی۔یہ اسٹڈی دو سال پہلے ملی جانکاری کو اپ ڈیٹ کرنے کے لئے کرائی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق غذائی سامان کو بازار تک پہنچنے میں کئی مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہر قدم پر کچھ نہ کچھ نقصان ہوتا ہے۔ برباد ہونے کے اہم اسباب،کسانوں ،تاجروں کے ذریعے ڈھنگ سے سامان کو نہ سنبھالنا، موسم کی مار جھیلنے والے اسٹوریج اور سپلائر کے پاس کولڈ اسٹوریج کا انتظام نہ ہونا، اسے روکنے کیلئے فوری ضروری قدم اٹھانے ہوں گے۔ اسٹوریج کے پرانے طریقوں کی جگہ جدید طریقوں کی ٹریننگ دینی ہوگی۔ کولڈ اسٹوریج کی تعداد بڑھانی انتہائی ضروری ہے۔ 12 ویں ہند۔ امریکہ اکنامک کانفرنس میں مرکزی وزیر زراعت ہرسمرت کور بادل نے کہا انگنت چیلنجوں کے باوجود ہندوستانی کسان بھارت کی 1.3 ارب جنتا کو کھلانے کیلئے کافی غذا پیدا کررہا ہے۔ بدقسمتی سے فوڈ پروسیسنگ ٹکنالوجی میں یہ رفتار نہیں دیکھی گئی ہے۔ اسے اپنانے کیلئے صنعتوں کو کسانوں کے ساتھ سانجھیداری کرنی چاہئے۔ اس سے ہماری غذائیت کی کوالٹی میں بھی بہتری آئے گی بلکہ ہمارے کسانوں کے لئے زیادہ آمدنی یقینی ہوگی اور برباد میں کمی آئے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!