ہماری آئینی تاریخ میں پہلی بار تین طلاق پر اسٹینڈ لیا

بھارت سرکار پہلی بار تاریخ میں مسلم خواتین کے حق میں کھل کر آگے آئی ہے۔ معاملہ مسلمانوں کے درمیان تین طلاق ، نکاح، ہلالہ اور کثیر شادی کے سوال کا ہے۔ جمعہ کو مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں کہا ہے مسلمانوں میں رائج تین طلاق ، ہلالہ، نکاح اور کثیر شادیاں اسلام کا اٹوٹ حصہ نہیں ہیں۔ مرکزی سرکار نے مسلم فرقے میں تین طلاق کے رواج کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ 65 برسوں سے اس فرقے میں اصلاح نہ ہونے کی وجہ سے عورتوں کو سماجی و اقتصادی طور سے کمزور بنا دیا گیا ہے۔ قانون وزارت کے ذریعے داخل حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کی رسموں کے جواز کی یکسانیت اور احترام غیر امتیازبھرے اصولوں کے پس منظر میں سپریم کورٹ کے ذریعے پھر سے محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ آئین کی دفعہ۔25 کے تحت تین طلاق یا کثیر شادی کی چھوٹ نہیں ملی ہے اور نہ ہی یہ مذہب کا حصہ ہے۔ مسلمانوں میں ایسی روایت کی منظوری کو چیلنج کرنے کے لئے سائرہ بانو کی طرف سے دائر عرضی سمیت دیگر عرضیوں کا جواب دیتے ہوئے مرکز نے آئین کے تحت جنسی برابری کے حق کا نپٹارہ کیا تھا۔ اس میں کہا کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا سیکولر جمہوریت میں یکساں درجہ بھارت کے آئین کے تحت خواتین کو دستیاب و وقار فراہم کرنے سے انکار کرنے کیلئے مذہب ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ آئینی اصولوں کا ذکرکرتے ہوئے اس نے کہا کوئی بھی کام جس سے خواتین کے سماجی ، مالیاتی یا جذبات خطرے میں پڑتے ہیں ، یا مردوں کی سنک کی زد میں آتی ہیں تو یہ آئین کی دفعہ14 اور 15 (یکساں حقوق ) کے تقاضے کے مطابق نہیں ہے۔ داخل حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ اسلام کو سرکاری مذہب ماننے والے بہت سے ملکوں نے شادی اور طلاق سے وابستہ قانون بدل دئے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان (1961) سے بنگلہ دیش (1971 ) سے مصر (1929) سے اور سوڈان(1935 )سے ،شام (1953) میں طلاق سے متعلق قوانین میں ترمیم کر تین طلاق پر پابندی لگا سکتے ہیں تو بھارت میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟ سرکار نے بین الاقوامی معاہدوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارت ان پر دستخط کر چکا ہے کہ خواتین کے برابری کے حق کو منظور کرتے ہیں اور برابری کے حق کو ماننے کے لئے پابندی ہیں۔ سرکار نے سپریم کورٹ میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کی طرف سے داخل حلف نامے کا بھی حوالہ دیا۔ سرکار نے کہا کہ بورڈ نے خود تین طلاق اور کثیر شادی کو بلارکاوٹ طریقے سے مانا ہے۔ ایسے میں کسی بھی غیر مناسب طور طریقے کو مذہب کا حصہ نہیں کہا جاسکتا۔ بتادیں کہ اسی سال جون میں بھارت میں تین طلاق کی روایت کو ختم کرنے کے لئے ایک آن لائن عرضی پر قریب 50 ہزار مسلم خواتین نے دستخط کئے تھے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!