چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات

بہار کے دبنگی لیڈر اور آر جے ڈی کے سابق ایم پی شہاب الدین پھر جیل پہنچ گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے جمعہ کو اس کی ضمانت منسوخ کردی تھی۔ اس نے سیوان کورٹ میں سرنڈر کردیا۔ قتل کے معاملے میں 11 سال تک جیل میں رہنے کے بعد20 دن پہلے ہی شہاب الدین کو پٹنہ ہائی کورٹ نے ضمانت دی تھی۔ عدالت نے جس طرح سے بہار سرکار کو پھٹکار لگائی اور اس کی نکتہ چینی کی کہ وہ تمام اپوزیشن اور دبنگوں کے حمایتیوں کے لئے سخت سندیش ہے۔ سپریم کورٹ نے صاف پوچھا کہ جب شہاب الدین کو ضمانت مل رہی تھی تو کیا سرکار سو رہی تھی؟ جسٹس پی سی گھوش اور امیتابھ رائے کی بنچ نے پانچ صفحات کے حکم میں کہا کہ ہم نے معاملے کے سبھی پہلوؤں پر غور کیا۔ ضمانت قانون کو دیکھتے ہوئے ہمیں لگتا ہے کہ ہائی کورٹ کا حکم ان سب پہلوؤں اور حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے دیا گیا ہے اس لئے ہم ضمانت منسوخ کرتے ہیں۔ عدالت نے راجیو قتل کانڈ میں مقدمے کو جلد پورا کرنے کا بھی حکم دیا۔ حقیقت میں 35 قتل معاملوں میں شہاب الدین کو ضمانت ملنا بہار میں اتحادی سرکار کے محکمہ قانون کی غیر جانبداری پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اگر ضمانت کا معاملہ سپریم کورٹ میں نہیں جاتا تو کیا ہوتا؟ شہاب الدین کے وکیل نے دلیل دی کہ ان کے موکل کو ہسٹری شیٹر کہا جاتا ہے جبکہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے اس پر جواب دیا کہ دو معاملوں میں تو اسی عدالت نے اسے ہسٹری شیٹر مانا ہے کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ یہ عدالت غلط ہے؟ ہم اس بارے میں واقف ہیں کہ ہسٹری شیٹر کو ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ سمجھنے کی بات ہے کہ یہ فیصلہ بہار سرکار کے خلاف قابل ملامت تبصرہ ہے۔ یہ کسی سے پوشیدہ نہیں کہ آر جے ڈی کے دباؤ میں نتیش سرکار نے جان بوجھ کر مقدمہ ایسے پیش کیا کے جج کو ضمانت دینی پڑی۔ امید کی جاتی ہے کہ شہاب الدین کے خلاف تمام التوا مقدموں میں تیزی آئے گی۔ بہار سرکار کے تازہ رویئے سے یہ بھی مناسب ہوگا کہ شہاب الدین کے تمام مقدموں کو بہار سے دوسری ریاست میں منتقل کیا جائے۔ بہار میں موجودہ سرکار کے رہتے انصاف کی امید کم ہی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟