سماجوادی پارٹی میں ٹکٹوں کے بٹوارے کو لیکر مچا گھمسان

سماجوادی پارٹی کی اندرونی رسہ کشی کم ہونے کے بجائے بڑھتی نظر آرہی ہے۔ پارٹی میں سینئرسطح پر جاری گھمسان پیر کو اور تیز ہوگیا۔ہونا بھی تھا کیونکہ معاملہ2017ء اسمبلی چناؤ میں ٹکٹوں کے بٹوارے کا تھا۔ ٹکٹ تقسیم کے اختیار کی مانگ کررہے وزیر اعلی اکھلیش یادو سے صلاح مشورہ کئے بنا چاچا شیو پال نے امیدواروں کی فہرست جاری کردی۔ اتنا ہی نہیں اکھلیش کے قریبیوں پر بجلی بھی گرادی۔ سپا پردیش پردھان شیو پال یادو نے پیر کو صبح 10:30 بجے 26 امیدواروں کی فہرست جاری کی ان میں9 نئے امیدوار ہیں جبکہ17 کے ٹکٹ بدلے گئے ہیں۔ ان میں سی ایم کے کچھ قریبی لیڈروں کے بھی ٹکٹ کٹے ہیں۔ ابھی نوجوان لیڈروں کی بحالی کی جدوجہد جاری تھی کہ وزیر اعلی کی صلاح لئے بغیر امیدواروں کی فہرست آگئی اور پارٹی میں گھمسان کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ زیادہ تر لیڈروں کے درمیان ملائم خاندان میں سینئر سطح پر خاص طور سے اکھلیش کی اپنے والد اور چاچا سے تقریباً بول چال بند ہوگئی۔اکھلیش یادو نے کہا کہ پارٹی امیدواروں کے ٹکٹ بدلے جانے کو لیکر انہیں کوئی معلومات نہیں ہے۔ ویسے بھی سیاست میں کب کیا ہوجائے کسی کو معلوم نہیں ہے۔ اکھلیش نے کہا جس کے پاس ترپ کا اکا ہوگا وہی جیتے گا۔ سماجوادی پارٹی کے لئے جس طرح 2017ء کے چناؤ اہم ہیں اسی طرح اکھلیش یادو اور شیو پال کے لئے امیدواروں کے انتخاب میں ان کا کردار اہم ہے۔ شاید 2017ء کے تجزیوں کو دیکھتے ہوئے اس کی کوشش کی جارہی ہے کس کے ساتھ کتنے ایم ایل اے ہیں۔ پارٹی میں وزن کا یہ پیمانہ ہوتا ہے۔ اکھلیش اگر پھر وزیر اعلی بننا چاہتے ہیں تو یہ تبھی ممکن ہوگا جب ان کی سرکار اور پارٹی کی ساکھ وکاس کرنے والی ہوگی۔ اکھلیش اگر اپنے آدمیوں کو ٹکٹ نہیں دلا سکے تو وزیر اعلی کیسے بنیں گے؟ اکھلیش یہ سمجھتے ہیں اور اس معاملے میں پیچھے نہیں رہنا چاہتے کہ وہ ایک پروگرام میں پبلک طور پر کہہ چکے ہیں کہ امتحان تو میرا ہونا ہے اس لئے ٹکٹوں کی تقسیم کا حق بھی مجھے ہی ہونا چاہئے۔ یہ بات وہ پارٹی کے چیف اور اپنے والد ملائم سنگھ کو بھی بتا چکے ہیں کیونکہ سپا میں پردیش پردھان ہی ریاستی پارلیمانی بورڈ کا صدر ہوتا ہے اس لئے سپا میں گھمسان روکنے کیلئے اکھلیش کو پارلیمانی بورڈ کا صدر بنانے کی مانگ اٹھی تھی۔ اس کے لئے آئین میں ترمیم ضروری ہے لیکن پارٹی میں اس کیلئے کارروائی شروع نہیں ہوسکی۔ سپا ایک اہم مرحلے میں داخل ہورہی ہے۔ ٹکٹوں کے بٹوارے میں سارا دارومدار منحصر کرتا ہے۔فی الحال شیو پال کا پلڑا بھاری ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟