دیش مفاد میں نہیں سپریم کورٹ اور مرکزی حکومت میں ٹکراؤ

ہائی کورٹ کے جج صاحبان کی تقرری اور تبادلہ کو لیکر عدلیہ اور مرکزی حکومت کے درمیان ٹکراؤ بڑھتا نظر آرہا ہے۔ ایسا لگتا ہے چیف جسٹس ٹی۔ ایس۔ ٹھاکر اس معاملے پر مرکز سے آر پار کی لڑائی لڑنے کی تیاری میں ہیں۔جسٹس ٹھاکر کی سربراہی والی بنچ نے کہا کہ جوڈیشیری سسٹم چرمرا گایا ہے لیکن مرکزی حکومت فائلیں دبا کر بیٹھی ہوئی ہے اگر مرکز کا یہی رویہ رہا تو انہیں حکم پاس کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سیدھا سوال کیا کہ آخر فائلیں کہاں اٹکی ہوئی ہیں اور حکومت کو کالیجیم کے فیصلے پر یقین کیوں نہیں ہے؟ چیف جسٹس مرکز سے ناراض ہیں ان کے اس ریمارکس سے صاف جھلکتا ہے ۔ غور طلب ہے کہ دیش میں جج صاحبان کی کمی اور التوا میں پڑے مقدموں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق نچلی عدالت سے لیکر عدالت عظمیٰ تک قریب ساڑھے تین کروڑ سے زائد مقدمے التوا میں پڑے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ پانچ نفری کالیجیم کے سربراہ چیف جسٹس نے کہا کہ ہائی کورٹ میں ججوں کی تقرری اور تبادلہ کے لئے 75 نام بھیجے گئے ہیں۔ ہائی کورٹ میں 43 فیصد ججوں کی کمی ہے۔ حکومت نے کالیجیم کی طرف سے پیش کردہ ناموں پر حامی کیوں نہیں بھری؟ پوری مشینری تباہ ہورہی ہے اور سرکار اس بارے میں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ ہم حالات کو اس مقام پر نہیں لے جاسکتے جہاں سب کچھ ٹھپ ہوجائے۔ اگر سرکار کو کسی نام پر اعتراض ہے توفائل واپس کرے۔ کالیجیم اس پر فیصلہ لے گا لیکن حکومت فائل دبا کر نام کی تجاویز میں دیر نہیں کرسکتی۔ یہ معاملہ تب اٹھا جب چیف جسٹس ٹھاکر، جسٹس چندر چوڑ اور جسٹس اے ایم ولکر کی تین نفری بنچ معاملوں کی سماعت میں دیری سے متعلق ایک مفاد عامہ کی عرضی پر سماعت کررہی تھی۔ فطری بات ہے کہ دباؤ عدالتوں پر ہے چیف جسٹس اس سے مطمئن نظر آتے ہیں۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب التوا مقدمے کو لیکر چیف جسٹس پبلک اسٹیج پر اپنے آنسو نہیں روک سکے تھے۔ چیف جسٹس کے اس حملہ آور رویئے کے نفع نقصانات بھی ہیں۔ یہ سرکار کو پیغام ہے کہ آپ ہمارے معاملے کو زیادہ دنوں تک بے وجہ لٹکا کر نہیں رکھ سکتے۔ یہ بالکل دلائل آمیز بات ہے اگر ججوں کی باقاعدہ بھرتی نہیں ہوگی تو مقدمے جلد سے جلد کیسے نمٹائے جائیں گے۔ سرکار اور سماج کی سطح پر بھی منفی اثر پڑے گا۔ ساتھ ہی جنتا میں عدلیہ اور سسٹم پر اعتماد گھٹے گا لیکن وزیر قانون نہیں مانتے ججوں کی تقرری کا کام ان کا ہے۔ پچھلے دنوں وزیر قانون روی شنکر پرساد نے بتایا تھا کہ جنوری سے لیکر ابھی تک ہائی کورٹ کے 110 ایڈیشنل ججوں کو پکا کیاگیا ہے۔ 52 جج نئے مقرر ہوئے ہیں،4 جج سپریم کورٹ میں تقرر ہوئے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟