سڑک حادثوں کے معاملے میں اتنا غیرحساس کیوں بن گئے ہیں

دہلی میں آئے دن سڑک حادثوں میں سڑک پر چلتے بے قصور راہ گیروں کی موت ہوتی رہتی ہے۔ سڑک پر زخمی پڑے شخص کی کوئی مدد نہیں کرتا اور وہ تڑپ تڑپ کر دم توڑ دیتا ہے۔ راجدھانی دہلی میں انسانیت کو شرمسار کرنے والی واردات کچھ دن پہلے ہوئی۔ وہ بھی پارلیمنٹ ہاؤس سے محض دو کلو میٹر دور۔ بتایا جاتا ہے کہ نئی دہلی کے رام مندر مارگ تھانہ علاقہ میں سڑک پار کررہے آئس کریم بیچنے والے کو تیز رفتار کار نے ٹکر ماری اور کافی دور تک وہ گھسیٹتا رہاجب لوگوں نے کارکے ڈرائیور کو گھیرلیا تواس نے زخمی کو آر ایم ایل ہسپتال میں علاج کرانے کا وعدہ کر گاڑی میں بٹھا لیا اور پھر آگے سڑک پر اتار تڑپتا چھوڑ فرار ہوگیا۔ آخر میں آئس کریم والے کی موت ہوگئی۔ سڑک حادثہ ہو یا پھر راستے میں کسی خاتون کے ساتھ ہونے والا واقعہ ہو عام طور پر دہلی کے شہری مدد کے لئے سامنے نہیں آتے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ پولیس کارروائی اور کورٹ کچہری کے چکر کاٹنے سے ڈرتے ہیں۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ لوگوں نے اپنا دائرہ اتنا کم کرلیا ہے کہ سماج میں ان کے سامنے کیا ہورہا ہے اس سے نہ تو انہیں کوئی فرق پڑتا ہے اور نہ ہی وہ اس سے مطلب رکھتے ہیں۔ کئی بار ایسا سامنے آیا ہے سڑک حادثے میں متاثر کی مدد کرنے والے شخص کو قانونی کارروائی سے گزرناپڑتا ہے۔ اسے گواہ کے طور پر عدالت ،کچہری بھی آنا جانا پڑتا ہے۔ پولیس واردات کے بارے میں پوچھ تاچھ کرتی ہے اور یہ کارروائی لمبی چلتی رہتی ہے۔ مقدمہ برسوں چلتا ہے اور مدد کرنے والے شخص کو آخر تک عدالتی کارروائی میں شامل ہونا پڑتا ہے۔ اس سے لوگ مدد کے لئے سامنے آنے سے بچتے ہیں۔ سڑک حادثوں میں متاثرین کو موقعہ واردات پر مدد کرنے والے نیک لوگوں کو قانونی خانہ پوری سے بچانے کے لئے سپریم کورٹ کے ذریعے جاری گائڈ لائنس محض خانہ پوری بن کر رہ گئی ہیں۔ ’سیو لائف فاؤنڈیشن ‘ نے سال2012ء میں سپریم کورٹ میں دائر مفاد عامہ کی عرضی میں کہا تھا کہ موقعہ واردات سے گزرنے والے چارمیں سے تین شخص متاثرہ کی مدد کرنے سے کتراتے ہیں۔ قریب88 فیصدی لوگ پولیس زیادتی اور قانونی پنگے بازی میں پھنسنے سے ڈرتے ہیں۔ عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے جسٹس وی ۔گوپالا گوڑا اور ارون مشرا کی بنچ نے اکتوبر2014ء میں مرکزی حکومت کو گائڈ لائنس بنانے کا حکم دیا تھا۔ سڑک ٹرانسپورٹ و قومی شاہراہ وزارت سے مئی 2015ء میں جاری گائڈ لائنس کو سپریم کورٹ نے مانا ۔2016ء میں منظوری دے دی۔ حالانکہ یہ محض خانہ پوری بن کر رہ گئی ہے۔ عدالت عظمی کی گائڈ لائنس کچھ اس طرح ہیں۔ متاثرہ کو ہسپتال پہنچانے والے شہری کو صرف اس کا پتہ نوٹ کر کے جانے دیا جائے گا ، اس سے اور کچھ پوچھا نہیں جائے گا۔ سبھی سرکار ی و پرائیویٹ ہسپتال متاثرین کی مدد کرنے والے شخص سے نہ تو ایڈمیشن فیس یا پیسے کی مانگ نہیں کریں گے اور نہ ہی اسے روک سکیں گے، ہسپتال ایسا صرف تبھی کرسکیں گے جب بھرتی کئے جانے والے شخص کی مدد کرنے والا فیملی ممبر یا رشتے دار ہو۔ اس سلسلے میں ہندی۔ انگریزی اور علاقائی زبان میں اینٹرینس گیٹ پر لکھوانا ہوگا۔ سڑک حادثوں میں متاثرین کی مددکرنے والوں کی حوصلہ افزائی کے طور پر مناسب انعام دیا جانا چاہئے، مدد کرنے والے شخص کی کسی قسم کی مجرمانہ جوابدہی نہیں ہوگی،فون کرکے متاثرہ کے سڑک پر پڑے ہونے کی جانکاری دینے والے موقعہ واردات پر موجود شخص کا نام یا ذاتی معلومات دینے کے لئے مجبور نہیں کیا جائے گا، ہسپتال میں ڈٹیل لیگل کیس فارم میں مدد کرنے والے شخص کی خواہش کی بنیاد پر ذاتی معلومات دی جائے گی، ان افسروں کے خلاف ڈسپلن شکنی اور شعبہ جاتی کارروائی کی جائے گی جو مدد کرنے والے شخص کا نام یا ذاتی معلومات دینے کے لئے مجبور کریں گے، اگر حادثے کا کوئی گواہ اپنی خواہش سے پہچان ظاہر کرتا ہے تو پولیس جانچ کے لئے صرف اس سے ایک بار پوچھ تاچھ کرسکتی ہے۔ اس سمت میں ریاستی سرکار کو ایک ایسا سسٹم بنانا ہوگا جس میں مدد کرنے والے شخص کا ٹارچر روکنے کیلئے ایک اسٹنڈرڈ آپریٹنگ سسٹم بنانا ہوگا۔ سڑک حادثے سے وابستہ ایمرجنسی معاملوں میں ڈاکٹرکی طرف سے فوری حرکت نہ کرنا پروفیشنل مس کنڈکٹ مانا جائے گا۔ گائڈ لائنس تو بہت اچھی ہیں لیکن ان کا اچھا نتیجہ تبھی آئے گا جب صحیح معنوں میں ان پر عمل ہو۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!