مودی نے پاکستان کو اسی کی زبان میں دیا کرارا جواب

ہر سال یوم آزادی پر لال قلعہ کی سفیل سے قوم کے نام وزیر اعظم کا خطاب عموماًرسمی ہوتا ہے لیکن یہ محض ایک خانہ پوری بھر نہیں ہوتا یہ دیش کے لوگوں سے وزیر اعظم کی ایک بات چیت بھی ہوتی ہے۔ آزادی حاصل کرنے کے بعد کے برسوں کا محاسبہ بھی ہوتا ہے اور کارناموں کا تجزیہ بھی۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے پچھلے خطاب کو یاد کریں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے کسی حد تک لیک کو توڑا تھا جب صاف صفائی اور عورتوں کو امپاورمنٹ پر خاص زور دیا تھا مگر اس بار اپنی حکومت کے کاموں کی قصیدہ خانی کرنے میں انہوں نے ذرا بھی قباحت نہیں دکھائی۔کیا اس کی وجہ کچھ ریاستوں میں آنے والے چناؤ ہیں؟ جو ہو البتہ اس بار آزادبھارت کی تاریخ میں کسی وزیر اعظم نے پاکستان کا نام لیکر خود حملہ بولا۔ انہوں نے جس طرح دہشت گردی پر پاکستان کوسیدھا پیغام دینے کے ساتھ اس کے قبضے والے کشمیر (پی او کے) اور بلوچستان کا ذکر کیا وہ خارجہ پالیسی میں وسیع تبدیلی کی علامت ہے۔ انہوں نے اپنی زبان میں دہشت گردی کو شہ دینے کی کوششوں کی مذمت کرنے کے ساتھ ہی پاکستان کے قبضے والے کشمیر کے ساتھ گلگت اور بلوچستان کا بھی ذکر کیا۔ یہ تذکرہ دراصل پچھلے کچھ دنوں سے بھارت کے رویئے میں آئی جارحیت کا نتیجہ ہے جس نے خارجہ پالیسی کو ایک نیا تیور دیا ہے۔ یہ صاف ہے کہ موجودہ پالیسی سے بھارت کو اب تک کچھ بھی حاصل نہیں ہوا ہے۔ اب جب یہ صاف ہے کہ پاکستان کو اسی کی زبان میں جواب دینا ہوگا تب پھر یہ بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ خارجہ پالیسی میں تبدیلی محض بیانوں تک محدود نہ رہے۔ وزیر اعظم کے خطاب سے صاف ہوگیا ہے کہ بھارت اب پاکستان کے کشمیر راگ کو لیکر چپ رہ کر نہیں سنے گا بلکہ اسے برابر کا جواب دیا جائے گا۔ پاکستان دنیا بھر کی اسٹیجز پر کشمیر کا مسئلہ، انسانی حقوق کا سوال بنا کر اٹھاتا رہا ہے، جبکہ انسانی حقوق کے معاملے میں بلوچستان میں اس کا خود ریکارڈ نہایت خراب ہے ۔ دراصل اب بولنے سے زیادہ کچھ کرنے کی بھی ضرورت ہے اس لئے اور بھی کیونکہ پاکستان سے متعلق پالیس کے معاملے میں ابھی تک ہم ڈیفنسنگ رہے ہیں اور ہم بیانات کی سطح تک ہی محدود ہیں۔ پاکستانی مقبوضہ کشمیر اور بلوچستان کے معاملے میں بحث کرنے سے بات نہیں بننے والی ہے۔ بھارت کو بلوچیوں کی کھلی مدد کرنی چاہئے جیسے پاکستان علیحدگی پسندوں کی جموں و کشمیر میں کررہا ہے۔ اگر جموں و کشمیر میں آزادی کی لڑائی ہے تو بلوچستان میں بھی آزادی کی لڑائی ہے۔ بدلتے بھارت کی خارجہ پالیسی بھی بدل رہی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟