جموں و کشمیر میں تو جموں۔ لداخ اور پی او کے بھی آتے ہیں

ہمیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جب بھی ہم کشمیر کی بات کرتے ہیں تو ہم صرف کشمیر وادی کی ہی بات کیوں کرتے ہیں۔ جموں و کشمیر میں وادی کے علاوہ جموں، لداخ اور پاک مقبوضہ کشمیر بھی تو شامل ہے۔ کشمیر مسئلہ پر راجیہ سبھا میں بحث کے دوران اپوزیشن کے لیڈر غلام نبی آزاد نے وزیر اعظم نریندر مودی کو نشانہ بناتے ہوئے پوری سرکار کو کٹہرے میں کھڑا کردیا ہے۔ غلام نبی کے الزامات سے بیک فٹ پر نظر آرہی سرکار کی طرف سے مورچہ سنبھالا جموں وکشمیر سے بھاجپا کے ایم پی شمشیر سنگھ منہاس نے۔ انہوں نے اس پوری بحث پر یہ کہتے ہوئے سوال کھڑا کردیا کہ جب جموں و کشمیر کی بات کی جاتی ہے تو جموں اور لداخ کے لوگوں کو کیوں بھلا دیا جاتا ہے؟ انہوں نے کہاکہ کشمیرسے زیادہ آبادی جموں اور لداخ میں رہتی ہے، ان کی پربحث کیوں نہیں ہوتی؟ان کے مفادات کی بات کیوں نہیں ہوتی؟ ریاست کے 55 فیصدی لوگ جموں خطہ میں بستے ہیں ان میں سے7 لاکھ نوجوان بھی بے روزگار بیٹھے ہیں کیا وہ بندوق نہیں اٹھا سکتے یا وہ بھی آزادی کا نعرہ نہیں لگا سکتے؟ وہ لوگ آج بھی اپنے دیش کے ساتھ کھڑے ہیں منہاس اس بات پر بھی سوال کھڑا کیا جس پر غلام نبی نے کہا کہ کشمیر کی لڑائی نوجوانوں کی بے روزگاری سے وابستہ ہے، کشمیر کی لڑائی قومیت بنام علیحدگی پسندی کی ہے۔ یہاں کا اصل مسئلہ بے روزگاری نہیں، پڑھے لکھے نوجوانوں کو وغلانے کا ہے۔ حال ہی میں جب سکیورٹی فورس نے پیلٹ گنوں کا استعمال شروع کیا اور ان مبینہ بے روزگاروں کو چھرے لگے تب جاکر سکیورٹی فورس پر پتھر پھینکنے کا سلسلہ رکا۔کیونکہ پہلی بار ان نوجوانوں کے ماں باپ کو لگا کہ پتھر بازی سے ان کے بچوں کا ہی نقصان ہوگا اور تب یہ سلسلہ بند ہوگیا۔ اب بات کرتے ہیں کشمیر کے اس حصہ کی جس پر پاکستان نے ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ وزیر داخلہ نے دو ٹوک کہا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت جموں وکشمیرکو بھارت سے الگ نہیں کرسکتی۔ اب پڑوسی کے ساتھ جموں و کشمیر کے اشو پر نہیں، صرف پاکستانی مقبوضہ کشمیر پر ہی بات چیت کی جائے گی۔ راجناتھ سنگھ نے پاکستان سے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ وہ ناجائز طریقے سے قبضائے کشمیر کے اس حصے کو خالی کردے جس پر اس نے طاقت کی بنیاد پر قبضہ کررکھا ہے۔ جموں و کشمیر کو لیکر بھارت پر الزام لگانے میں مشغول پاکستان اپنے گریباں میں جھانکنے کو تیار نہیں ہے۔ اعدادو شمار صاف بتاتے ہیں کہ کیسے پاکستان مقبوضہ کشمیر کے لوگ بیحد بدحالی کا شکار ہیں۔ اسکول، اسپتال جیسی بنیادی سہولیات سے محروم لوگ تنگدستی کی زندگی گزاررہے ہیں۔ 50 فیصدی سے زیادہ نوجوان بے روزگار ہیں۔گلگت ۔بلتستان خطہ میں شیعہ اقلیت میں آگئے ہیں۔ پورے پاکستان میں سنی مسلمانوں کو لیکر بسایا جارہا ہے تاکہ اصلاً کشمیریوں کی آوازکودبایا جاسکے۔ لاکھوں شیعہ بے سہارا مہاجر کی زندگی بتانے پر مجبور ہیں۔ یہ معاملہ یونیورسٹیوں کا ہویا میڈیکل کالجوں کا ہو، معیشت کا ہو یا بنیادی سہولیات کا ہو پاکستانی مقبوضہ کشمیر بھارت کے جموں و کشمیر کے سامنے کہیں بھی نہیں ٹھہرتا۔ آئے دن پی او کے کے گلگت ۔بلتستان خطہ میں پاکستانی پولیس کی طرف سے ڈھائے جارہے مظالم کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ ایشین ہیومن رائٹس کمیشن کی تازہ رپورٹ میں پاک پولیس کی بربریت اور ظلم کی تصویر سامنے آئی ہے۔ پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے گلگت۔ بلتستان علاقہ کے ایک قصبے میں پولیس نے ایک بے قصور شخص کی صرف اس لئے پٹائی کردی کہ اس نے مقامی پنچایت کے امتیاز پر مبنی اس فیصلے کو ماننے سے انکار کردیا۔ شبیر حسین نامی شخص کو بغیر ایف آئی آر اور بغیر وارنٹ کے پولیس تھانے لے گئی اور اس وہاں اس کی اتنی بے رحمی سے پٹائی کی تھی کہ اس کے جسم پر چوٹ کے گہرے نشام پڑ گئے۔ کمیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وہاں پولیس ہی سب کچھ کنٹرول کرتی ہے اس لئے وہ کسی پر بھی ظلم ڈھانے کے لئے آزاد ہے۔ کمیشن نے یہ بھی کہا کہ وہاں کہ دیہی علاقوں و شہروں میں لوگوں کو ٹارچر کرتی ہے۔ پولیس ان سے ناجائز وصولی بھی کرتی ہے۔ پاکستان ہمارے نوجوانوں کو بھڑکانے کے بجائے اگر اپنے حصے کے علاقے کی ترقی پر زیادہ دھیان دے تو نہ صرف کشمیریوں کی بھلائی ہوگی بلکہ ہمارے خطے کو بھی راحت ملے گی۔ ہم راجناتھ سنگھ کی بات سے متفق ہیں، اب اگر جموں کشمیر پر پاکستان سے بات ہوگی تو صرف پاک مقبوضہ کشمیر کو خالی کرنے پر ہی ہوگی۔
(انل نریند)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟