پاکستان نے جب بلوچستان پر زبردستی قبضہ کیا
وزیر اعظم نریندر مودی نے بلوچستان میں فوج کے دم پر انسانی حقوق کو دبانے کا اشو اٹھا کر نہ صرف پاکستان کی جموں و کشمیر میں بڑھتی سرگرمیوں کا سخت جواب ہی دیا بلکہ پاکستان کی کمزور نبض کو بھی چھیڑ دیا ہے۔ پلٹ وار سے تلملایا پاکستان اب بلوچستان کو لیکر ساری دنیا کے سامنے صفائی پیش کرنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ ایسے میں ہم قارئین کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ بلوچستان کا اشو ہے کیا؟ بلوچستان پاکستان کے ساؤتھ ویسٹ سمت میں بسا ہوا ہے۔ بلوچستان کی مغربی سرحدیں ایران اور افغانستان سے لگتی ہیں اس کے ساؤتھ میں عرب ساگر ہے۔ حدودربہ کے حساب سے یہ پاکستان کا آدھا ہے حالانکہ پاکستان کی کل آبادی کے محض3.6 فیصد لوگ ہی اس خطے میں رہتے ہیں۔ قدرتی وسائل سے بھرپور ہونے کے باوجود یہاں لوگوں کی مالی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ وہ آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ بلوچستان کی گنتی پاکستان کے سب سے پسماندہ اور غریب علاقوں میں ہوتی ہے۔ ٹوٹے پھوٹے گھروں میں پانی ، بجلی تک نہیں ہے۔ بھارت۔ پاک بٹوارے سے پہلے انگریزی حکومت کے دوران بلوچستان چار ریاستوں میں بٹا ہوا تھا جنہیں کلات، لاسبیلا اور کھارن اور مکان کے نام سے جانا جاتا تھا۔ پاکستان بننے سے تین مہینے پہلے محمدعلی جناح نے کلات کے تحت پورے بلوچستان کی آزادی اور اس کے پاکستان میں انضمام پر انگریزی حکومت سے بات چیت کی تھی۔ جناح ، کلات کے خانوں اور وائسرائے کے درمیان کئی دور کی میٹنگ ہوئی ۔ 11 اگست 1947ء کو طے ہوا تھا کہ پاکستان کلات کو ایک آزاد اور مختار ریاست کے طور پر منظوری دے گا۔ ڈیفنس ، خارجہ اور ٹیلی کمیونی کیشن کے سارے فیصلے پاکستان ہی کرے گا، لیکن جناح کلات کو مختار ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ کلات کے خان دوسری ریاستوں کی طرح پاکستان سے انضمام کے لئے دستخط کریں۔ خان اس نقلی آزادی کے لئے تیار نہ تھے۔ فروری1948ء میں بلوچستان کو لکھے خط میں جناح نے کہا ’’میں آپ کو صلاح دیتا ہوں کہ اب بغیر دیری کے آپ کلات کو پاکستان میں انضمام کردیجئے‘‘۔ اس کا جواب خاں نے دیا کہ انضمام کے مسئلے پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں (دارالعمرہ اور دارالعوام) کی میٹنگ بلائی گئی ہے جو رائے بنے گی آپ کو اس سے مطلع کردیا جائے گا۔ ادھر پاکستان نے امریکی سفیر کو 23 مارچ 1948ء کو بتایا گیا کہ کلات کے ماتحت آنے والے کھارن ،لاسبیلا اور مکران پاکستان میں انضمام ہونے کو تیار ہو چکے ہیں۔ خاں نے اس پر اعتراض جتایا۔ دلیل دی کہ یہ پاکستان کے ساتھ اسٹیڈسٹل سمجھوتے کی خلاف ورزی ہے۔ 26 مارچ 1948ء کو پاکستانی فوج بلوچستان کے ساحلی علاقوں پاسنی، زیوانی اور تربت میں داخل ہوگئی۔ اگلے ہی دن اعلان کردیا گیا کہ خان انضمام کو تیار ہوگئے ہیں۔ اس طرح پاکستان نے اپنی آزادی کے محض 227 دن بعد بلوچستان پر قبضہ کرلیا۔ حالانکہ بلوچستان کی پارلیمنٹ انضمام کے ریزولوشن کو خارج کرچکی تھی لیکن فوج کی طاقت پر پاکستان نے بلوچستان کو ہڑپ لیا۔ اس سے پہلے کراچی میں باقاعدہ بلوچستانی سفارتخانہ ہوا کرتا تھا جس میں وہاں کا جھنڈا لگا ہوا تھا اور ایک سفیر بھی معمور تھا۔ پاکستانی قبضے کے بعد سے ہی یہاں بغاوت کی آگ بھڑک رہی ہے۔ قبضے کے بعد سے ہی پاکستانی فوج یہاں جمی ہوئی ہے۔ بلوچوں کے سب سے بڑے لیڈر سردار اکبر بکتی 2006ء میں فوجی کارراوئی میں موت کے بعد یہاں یہ آگ تیز ہوگئی۔ پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کے دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ کیسے پاک فوج آئی ایس آئی اپنی کچلنے کی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ بڑی تعداد میں گرفتاریاں ہورہی ہیں، انہیں بلا وجہ حراست میں رکھ کر اذیتیں دی جارہی ہیں ، ہزاروں لوگ نظر بند ہیں۔ بلوچستان اسمبلی میں یہ سابق اپوزیشن لیڈر کاگھول علی بلوچ نے دعوی کیا ہے کہ چار ہزار سے زیادہ لوگ لا پتہ ہیں ان میں ایک ہزار سے زیادہ طالبعلم اور سیاسی ورکر ہیں۔ بلوچ نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے لیڈر سردار اختر مینگل کو دہشت گردی کے الزام میں 2006ء میں گرفتار کیا گیا جب وہ مشرف کے خلاف ریلی کرنے کا پلان بنا رہے تھے ۔ یہ ہے بلوچستان کی اصلی کہانی۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں