سپا کی اندرونی رسہ کشی کہیں پارٹی کو نہ لے ڈوبے

اترپردیش اسمبلی چناؤ جیسے جیسے قریب آرہے ہیں حکمراں سماجوادی پارٹی کی اندرونی رسہ کشی کھل کر سامنے آتی جارہی ہے۔ ایک طرف ہے وزیر اعلی اکھلیش یادو تو دوسری طرف ان کے چاچا شیو پال یادو اور بیچ میں ہیں پارٹی کے چیف ملائم سنگھ یادو۔ دراصل اکھلیش یادو سمجھتے ہیں کہ 2017 کا اسمبلی چناؤ سپا تبھی جیت سکتی ہے جب وہ ایک اچھی سرکار و انتظامیہ دیں اور ریاست کی ترقی کریں جو نظر بھی آئے لیکن ان کی راہ میں سب سے بڑا روڑا ان کے اپنے ہی کنبے والے ہیں۔ ملائم سنگھ کچھ بھی کہتے رہے ہیں کبھی کچھ شاید ان کو سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ کیا بول رہے ہیں؟ سپاچیف نے ایک بار پھر یوپی کے وزیر اعلی اور اپنے بیٹے اکھلیش یادو کی موجودگی میں حکومت اور پارٹی کی شارے عام نکتہ چینی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اکھلیش سرکار کے کئی وزیر کرپٹ ہیں وہ پارٹی کے لئے بوجھ بن چکے ہیں اور پارٹی کے بھی کئی لیڈر سازشوں میں لگے رہتے ہیں۔ یہ سب وہ پہلے بھی کئی بار کہہ چکے ہیں سپا کے صدر ملائم سنگھ یادو کے بھائی اور پارٹی کے ریاستی یونٹ کے صدر شیوپال سنگھ یادو نے ناجائز شراب کا کاروبار اور سپائیوں کے ذریعے زمین قبضہ نہ روکنے پر استعفے کی دھمکی سے تازہ رسہ کشی شروع ہوئی ہے اس پر ایتوار کو مین پوری اور پھر اگلے دن ایٹاوا میں شیو پال کے بیان کے بعد ہی یوم آزادی کے موقعہ پر ملائم نے دو ٹوک کہا کہ شیوپال کے ساتھ سازش رچی جارہی ہے۔وہ الگ تھلگ پڑ گئے تو سرکار مشکل میں آجائے گی ۔ اگر میں کھڑا ہوگیا تب سارے چاپلوس بھاگ جائیں گے اور سرکار کی ایسی کی تیسی ہوجائے گی۔ ملائم کے اس بیان نے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ انہوں نے تو صاف طور پر کہا کہ پارٹی کے لوگ شیوپال کے بے عزتی کررہے ہیں۔ شیوپال کا یہ درد بھی دنیا کے سامنے آگیا ہے جب انہوں نے کہا افسران ہماری نہیں سن رہے ہیں۔ مانا جارہا ہے ملائم سنگھ کے ذریعے اتنے سخت الفاظ و رخ سے انہوں نے شیو پال کو منانے کی کوشش کی ہے۔ مگر اس طرح کے بیانات سے تو پارٹی کا کوئی بھلا نہ ہوگا اور نہ سرکار کا اور نہ ہی یوپی کی جنتا کا۔ حقیقت میں ایسے بیان پہلے سے ہی تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اور کمزور سمجھے جانے والے وزیر اعلی کو اور زیادہ کمزور بناتے ہیں جس کا سیدھا اثر ان کی سرکار اور طریقہ کار پر پڑتا ہے۔ یوپی میں اگلے سال اسمبلی چناؤ ہیں ظاہر ہے کہ سپا بطور وزیر اعلی اکھلیش یادو کے کام کاج کو خاص اشو بنا کر ہی چناؤ میں اترناچاہے گی۔ ایسے میں اکھلیش کے ہاتھ مضبوط کرنے کے بجائے چاروں طرف سے ان پر حملے سے پارٹی کا بھلا ہونے والا نہیں ہے اور تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ اکھلیش کی ٹانگ کوئی اپوزیشن نہیں کھینچ رہی ہے بلکہ ان کے خاندان والے ہی سرکار اور پارٹی کو ڈوبانے میں لگے ہوئے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟