مودی حکومت کے دو برس۔ کچھ کٹھے کچھ میٹھے نتائج
وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت والی ا ین ڈی اے سرکار دو سال پورے ہونے پر ان دنوں خوب جائزے ہورہے ہیں مودی سرکار نے 26مئی 2014 کو حلف لیاتھا۔ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ مودی حکومت کے بارے میں عام رائے یہی سامنے آئی ہے کچھ بے شک چناوی وعدے پورے کرنے میں بھلے ہی اس حکومت کاریکارڈ بہت مثبت نہ رہا ہوں لیکن عام طور پر عوام کی نظروں میں اس کی ساکھ ایک سرگرم اور نیک نیت بنی ہے۔ کچھ میڈیا ہاؤس کی اس حکومت کی بخیہ اُدھیڑ رہے ہیں تو کچھ تعریفیں کرنے میں لگے ہوئے ہیں مودی حکومت کے دو سال پورے ہونے پر سبھی وزراء اپنے اپنے کارنامے گنا رہے ہیں لیکن یہ کہنا ہوگا کہ بے شک اس حکومت نے بہت سی ترقیاتی اسکیمیں شروع کی ہیں اس کا نتیجہ بھی آئے گا لیکن ان اسکیموں کے نتائج آنے میں وقت لگتا ہے کئی سال لگیں گے مثبت نتائج آنے میں۔ دوسری طرف ہمیں یہ کہنے میں قباحت نہیں ہے کہ سابقہ حکومت نے جنتا کی عادتیں خراب کردی ہیں۔ عوام اب بغیر محنت کئے اور بغیر انتظار کئے نتیجہ چاہتی ہیں زیادہ تر عوام کو روٹی روزی سے مطلب ہیں۔ وہ مہنگائی سے نجات پانا چاہتی ہے۔ سلامتی چاہتی ہے۔ روزگار چاہتی ہے۔ وہ بھی فوراً ان سیکٹروں میں مودی سرکار سے ناخوش ہے۔ وہ اس حکومت سے زیادہ فلاحی کاموں میں راحت چاہتی ہیں حال ہی میں ختم ہوئے تاملناڈو اسمبلی چناؤ میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح جے للیتا نے نہ صرف ایسی فلاحی اسکیموں پر اپنی توجہ مرکوز کی، اماں برانڈ آٹا، اماں کینٹین، اماں ساڑی، اماں کلینک وغیرہ ایسی اسکیمیں تھیں جس سے عوام کی روزمرہ کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں۔اسی کا انہیں فائدہ ملا جب سے نریندر مودی نے عہدہ سنبھالا ہے تبھی سے دیش کے کچھ طبقات جن میں سیاسی حریف بھی ہے، اقلیتوں کا ایک طبقہ، صحافی اور میڈیا سے جڑے ہوئے طبقات، کچھ دانشور اس سرکار کے خلاف ہیں۔ اس کی وجہ سے جنتا کے ایک طبقے میں خاص کر اقلیتوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھا ہے دیش کچھ حد تک تقسیم ہوا ہے اس سرکار کو اس عدم تحفظ کے احساس کو کم کرنے، اس خلیج کو پر کرنے اور دیش کو متحد کرنے کی اور ٹھوس کوششیں کرنی ہونگی۔ مودی سرکار کے دو سال سے لوگوں میں مایوسی تو ہے ، لیکن غصہ نہیں۔ لیکن زیادہ تر کہتے ہیں کہ دو سال کا وقت بہت کم ہوتا ہے ہمیں نتیجہ آنے کاانتظار کرناہوگا۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی ہچک نہیں ہے کہ عوام کی امیدیں ضرورت سے زیادہ بڑھ گئی تھیں۔ اچھے دنوں کا جو وعدہ کیاگیا تھا وہ ابھی تک نہیں پورا ہوا لیکن انہیں پوراکرنے کی کوشش ضرور ہورہی ہیں۔ اسے زمین پر اتارنے میں وقت لگے گا ۔ مرکزی سرکار کے کام زمینی سطح پر دکھائی دینے میں ریاستی حکومت کا رول ہوتا ہے کیونکہ زیادہ تر اسکیمیں ریاستوں کو ہی نافذ کرنی ہوتی ہیں۔ مودی حکومت کو ریاستوں کے ساتھ ا پنا ریپو قائم کرنے کے لئے بہتر تال میل قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک دو آتنکی حملوں کو چھوڑ دیں تو گھریلو محاذ پر موٹے طور پر دیش میں امن ہی رہا ہے۔میڈیا و دیگر اداروں کے ذریعے گنائے جانے والی ناکامیوں کو سرے سے مستردکرنا صحیح نہیں ہے اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے مثال کے طورپر ایسو اچیم نے حکومت نے آگاہ کیا ہے کہ وہ سنبھال جائے کیونکہ ٹیکس تنازعوں اور بینکنگ سسٹم میں پھنسے ہوئے قرض کی بھاری بھرکم رقم کافی پریشان کرنے والی ہے۔ کاروباری منڈی کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس مسئلے پر بڑھتی تشویشات پر ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے اس معاملے میں سرکار اور ریزرور بینک آف انڈیا کو کافی احتیاط سے کام کرنے کی ضرورت ہے اس کے علاوہ ٹیکس تنازعوں کا نپٹارہ زرعی اصلاحات، سرمایہ کاری اور اہم جی ایس ٹی بل پر سرکار کو ابھی بہت کچھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی این ڈی اے سرکار کاکام پرگتی پر ہے۔ابھی اس کو مزید ٹھیک کرنا ہوگا جب تک کہ ریلوے اور قومی شاہراہوں کے سیکٹر میں کئے گئے ٹھوس کاموں کے نتائج سامنے نہیں آتے بین الاقوامی سیکٹر میں اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ نریندر مودی نے دنیا کی نظروں میں ہندوستانیوں کی عزت بڑھائی ہے اب اس کا دنیا میں احترام ہوناشروع ہوگیا ہے اور بھارت ایک ابھرتی طاقت بن کر سامنے آیا ہے۔ انگریزی اخبار اکانومک ٹائمز اور بک ٹریڈ فرم موومنٹ میگنٹ اپنے ایک آن لائن سروے کرکے مودی سرکار کے د وسال کے کام کاج کے بارے میں لوگوں کی رائے لی ہیں۔ اس سروے کے لئے سوشل میڈیا پر لوگوں سے بات چیت، بلاگس اور نیوز سائڈ پر ٹوپکس کی بنیاد بنا کر نتیجہ نکالا گیا ہے۔ یہ اسٹڈی 1جون 2015سے لے کر 20 اپریل 2016 تک انٹر نیٹ پر 15000 سے زیادہ بات چیت پر مبنی ہے۔ اس کے مطابق مودی سرکار کی پہلی سالگرہ پر 48 فیصدی لوگوں کا رویہ مثبت دیکھاگیا ہے لیکن اس سال یہ 8 فیصدی منفی ہوگیا۔اسٹڈی کے مطابق سرکار پر ہوئی بات چیت میں 46 فیصدی لوگ مثبت دکھائی دیئے وہی 54 فیصد ناخوش لوگوں کا مودی سرکار کی طرف جھکاؤ پہلے سال کے مقابلے +48 کے مقابلے دوسرے سال-8 فیصد گر گیا ہے۔ مودی سرکار سے ہم امید کرتے ہیں کہ انہیں اس مایوسی کا علم ہوگا۔ آنے والے دو سال میں چیک میک یا بریک موومنٹ ہوگا۔ اس دوران نہ صرف وعدوں کو پورا کرنے کے لئے پوری تیزی لانی ہوگی بلکہ وہ زمین پر بھی دکھائی دے اس کے لئے بھی تمام کوششیں کرنی ہونگی۔ اگلے ایک سال ہی 2019 میں مودی سرکار کی قسمت طے ہوگی۔ اگلے سال میں پانچ ٹھوس اشو ہیں نکتہ ہے جو مودی سرکار کے لئے بہت اہم ہے۔ ان دو برسوں میں کہیں نہ کہیں یہ آواز اٹھنے لگی ہے کہ حکومت نے اقتصادی محاذ پر اتنے بولڈ قدم نہیں اٹھائے ہیں جتنی توقع تھی ایسے میں اگلے برس جی ایس ٹی سمیت لیبر ، بینک، زمینی اصلاحات جیسے محاذ پر سرکار کو بڑے قدم اٹھانے ہونگے۔ دو سال بعد بھی اقتصادی ترقی زور نہیں پکڑ سکی۔ اور برآمد ات کم ہوئی ہیں ۔شہری معیشت کی حالت خستہ ہے اور نئے پروجیکٹ آگے نہیں بڑھ رہے ہیں۔ دوسال پورا کرنے تک سرکار ایسی منفی اور عالمی بحران ( معیشت) کے درمیان بحال یہ پیغام سرکار دینے میں کچھ حد تک کامیاب رہی ہیں کہ اس نے جو قدم اٹھایا ہے اس کااثر جلد دکھائی دینے لگے گا ایسے میں اگلے برس ان دعووں پرکتنا گھرا اترتی ہے اس سے حکومت کا مستبقل طے ہوگا ۔ یوپی اے سرکار میں گھوٹالوں کے بعد مودی سرکار اقتدار میں آئی ہیں اس نے اقتدار میں آنے کے بعد کرپشن پر لگام لگانے میں کامیابی پائی ہیں لیکن اب الزامات سے کام نہیں چلے گا وہ ہنی مون پیریڈ ختم ہوچکا ہے اگر ٹھوس کارروائی ان گھوٹالوں میں نہیں ہوئی تو اس کے ارادے پر سوال اٹھیں گے کل ملا کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ مودی سرکار کے دو برس کے عہد کے نتیجے گھٹے میٹھے رہے ہیں۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں