پانچ ریاستوں کے نتائج سے بھاجپا اور علاقائی پارٹیوں کی طاقت بڑھی ہے
پانچ ریاستوں میں اسمبلی چناؤ کے جو مینڈیٹ آئے ہیں اس سے دو تین باتیں سامنے آجاتی ہیں پہلی یہ کہ ان انتخابات میں کانگریس اوندھے منہ گری ہے۔ بھاجپا کا کانگریس مکت ابھیان کافی حد تک کامیاب ہوتا نظر آرہا ہے۔ جہاں کبھی کانگریس سال 2000 ء میں 15 ریاستوں میں حکمرانی کرتی رہی وہیں یہ گھٹ کر صرف6 چھوٹی ریاستوں تک سمٹ گئی ہے۔ پوڈوچیری اور بہار کو ملا دیں تو 8 ریاستوں میں کانگریس حکومت رہ گئی ہے۔ کانگریس دیش کی صرف15.6 فیصدی آبادی پر ہی راج کررہی ہے جبکہ یہ 50 فیصدی سے زیادہ میں حکمرانی کیا کرتی تھی۔ اس پر سوشل میڈیا میں ایک پوسٹ وائرل ہوا ہے جس میں جملہ لکھا ہے ’’سونیا ۔ راہل ہم تم ایک جنگل میں بیٹھے ہوں اور مودی آجائے۔۔۔‘‘ حقیقت میں 5 ریاستوں میں چناؤ نتیجوں پر یہ طنز صحیح اترتا ہے۔ آسام میں کرسی چھنی، مودی نے قبضہ کرلیا۔ چائے بیچنے والے نے تو چائے باغانوں پر ہی قبضہ کرلیا۔ کیرل میں بھی لیفٹ نے قبضہ کرلیا۔ مغربی بنگال میں اپنی سیاسی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے ممتا بنرجی کے آفر کو ٹھکرا کر لیفٹ کے ساتھ اتحاد کرلیا۔ اب وہاں نہ تو لیفٹ ہی بچا ہے اور نہ کانگریس، کیا اسے کانگریس مکت بھارت کی شروعات نہ مانی جائے۔
مغربی بنگال میں لیفٹ پارٹیوں نے اور تاملناڈو میں ڈی ایم کے نے کانگریس کے ساتھ جو اتحاد کیا تھا، لیکن کراری ہار کے بعد لیفٹ اور ڈی ایم کے دونوں نے اس کا ٹھیکرا کانگریس کے ہی سر پھوڑ دیا ہے۔ ڈی ایم کے نے کہا کہ کانگریس سے گٹھ جوڑ کرنے کی وجہ سے اسے ہار کاسامناکرنا پڑا۔ وہیں مارکسوادی پارٹی نے کہا کہ کانگریس کے ساتھ ہاتھ ملانا ایک بڑی بھول تھی، ایک بڑی غلطی بھی تھی۔ ریاست کے لوگوں نے اس اتحاد کے لئے لیفٹ پارٹیوں کو ذمہ دار مانتے ہوئے اسے پوری طرح سے مسترد کردیا۔ دوسری بڑی اہم بات جو ابھر کر سامنے آتی ہے وہ ہے پانچ ریاستوں کے چناؤ میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے صرف پایا ہی ہے کھویا کچھ نہیں ہے۔ اہم یہ ہے کہ اس چناؤ نتیجوں کا اثر اگلے سال ہونے والے اسمبلی چناؤ پر نظر آئے گا اور پھر اس کی گونج لوک سبھا چناؤ میں بھی سنائی دے سکتی ہے۔ پارٹی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ رہا ہے کہ اس نے نارتھ ایسٹ میں پہلی بار کسی ریاست میں چناوی جیت حاصل کی ہے اور وہ سرکار بنانے جارہی ہے۔ اس کے علاوہ اس نے کیرل جیسی ریاست میں بھی اپنا کھاتہ کھول لیا ہے۔ مغربی بنگال میں بھی پارٹی نے نہ صرف ووٹ بڑھایا ہے بلکہ اپنی پچھلی سیٹوں کی تعداد میں بھی اضافہ کیا ہے۔ بھاجپا کے لئے آسام کے نتیجے ایک طرح سے سنجیونی ہیں۔
یہ پہلی ریاست ہے جہاں لوک سبھا چناؤ کے بعد پارٹی نے نریندر مودی کے علاوہ پارٹی کے ہی نیتا کا چہرہ پیش کیا۔ پارٹی کا یہ داؤ کامیاب رہا۔ اس سے پہلے بہار میں بغیر چہرے کے اور دہلی میں باہر سے کرن بیدی کو لاکر چناؤ لڑنے سے بھاجپا کی کراری ہار ہوئی تھی لیکن سروانندسونوال کو خاص طور سے وزیر اعلی کے امیدوار کے طور پر پیش کر پارٹی نے داؤں چلا اور یہ پوری طرح کامیاب رہا۔ یہ اس معنی میں بھی اہم ہے کہ لوک سبھا چناؤ میں بھاری جیت حاصل کرنے کے باوجود یہ سوال اٹھتے رہے ہیں کہ بھاجپا نہ تو نارتھ ایسٹ میں ہے اور نہ ہی ساؤتھ اس لئے اسے نیشنل پارٹی کیسے کہا جاسکتا ہے؟ بھاجپا کا اب 13 ریاستوں میں حکومت قائم ہوچکی ہے جو دیش کی 43.1 فیصد آبادی بنتی ہے۔ 5 ریاستوں کے چناؤ میں سے بھلے ہی بی جے پی ایک ریاست میں اپنی سرکار بنانے میں کامیابی پائی ہو لیکن ان نتیجوں کا سب سے بڑا اثر پی ایم مودی اور پارٹی صدر امت شاہ کی جوڑی پر نظرآئے گا۔ دہلی اور بہار میں ملی کراری ہار کے بعد مودی کے کرشمے اور شاہ کی سیاست سمجھ کر سوال اٹھنے لگے تھے لیکن اب دونوں کی پوزیش مضبوط ہوتی نظر آئے گی۔اور اب بات کرتے ہیں علاقائی پارٹیوں کی بڑھتی سیاست حیثیت پر۔
ہمارا خیال ہے کہ کانگریس کا کمزور ہونا دیش کے مفاد میں ہیں ہے جو سیاسی خلا کانگریس چھوڑتی جارہی ہے اسے ممتا بنرجی اور جے للتا جیسی لیڈر بھرتی جارہی ہیں۔ مغربی بنگال میں ووٹروں نے ممتا بنرجی پر دوبارہ بھروسہ جتایا ہے اور یہ صاف پیغام دیا ہے کہ وہاں جنتا کے بیچ جاکر جو کام کرے گا، وہی راج کرے گا۔ تاملناڈو میں این جی آر کے بعد کوئی حکمراں پارٹی مسلسل دوسری بار اقتدار میں لوٹی ہے تو اس کا سہرہ جے للتا کو ہی جاتا ہے۔ جے للتا چھٹی بار صوبے کی وزیر اعلی بنیں گی۔ جے للتا کی جیت کے پیچھے ان کی فلاحی اسکیموں کا اثر صاف دکھائی دیا، ’اماں کینٹین‘ ، ’اماں اوشدھیالیہ‘، ’راشن رعایتی کارڈ‘ والوں کو 20 کلو چامل، مفت مکسر گرائنڈر،دودھ دینے والی گائے۔بکریوں کو بانٹنا اور عورتوں کے لئے منگل سوتر کے لئے 4 گرام سونا دینا‘ جیسی اسکیمیں رنگ لائی ہیں۔ مرکزی سرکار کو بھی ترقیاتی اسکیموں کے ساتھ فلاحی اسکیموں پر بھی اماں سے سبق لینا چاہئے۔ لگاتار دو چناؤ جیتنے کے بعد ممتا بنرجی اور جے للتا کی مرکز میں دھمک بڑھنا طے مانا جارہا ہے۔ مرکزی سرکار کو ترنمول اور انا ڈی ایم کے سے راجیہ سبھا میں اٹکے پڑے جی ایچ ٹی سمیت کئی اہم بلوں پر حمایت کی ضرورت پڑے گی۔ کانگریس نے مغربی بنگال میں ممتا اور تاملناڈو میں جیہ کے خلاف چناؤ لڑا تھا۔ ایسے میں یہ مانا جاسکتا ہے کہ راجیہ سبھا میں ترنمول کانگریس اور انا ڈی ایم کے کے رشتے کانگریس کے ساتھ پہلے جیسے رہنا مشکل ہیں۔ایسے میں بھاجپا کو اس کا فائدہ ہوسکتا ہے کیونکہ پارٹی کے پاس راجیہ سبھا میں اکثریت نہیں ہے۔ پارٹی کو امید ہے کہ ممتا اور جیہ للتا اقتصادی اصلاحات میں مرکز کا ساتھ دے سکتی ہیں۔ ان دونوں ریاستوں میں نہ صرف ان دونوں لیڈروں نے اپنا جادو برقرار رکھا ہے بلکہ نئے ریکارڈ بھی قائم کئے ہیں۔
مغربی بنگال میں لیفٹ پارٹیوں نے اور تاملناڈو میں ڈی ایم کے نے کانگریس کے ساتھ جو اتحاد کیا تھا، لیکن کراری ہار کے بعد لیفٹ اور ڈی ایم کے دونوں نے اس کا ٹھیکرا کانگریس کے ہی سر پھوڑ دیا ہے۔ ڈی ایم کے نے کہا کہ کانگریس سے گٹھ جوڑ کرنے کی وجہ سے اسے ہار کاسامناکرنا پڑا۔ وہیں مارکسوادی پارٹی نے کہا کہ کانگریس کے ساتھ ہاتھ ملانا ایک بڑی بھول تھی، ایک بڑی غلطی بھی تھی۔ ریاست کے لوگوں نے اس اتحاد کے لئے لیفٹ پارٹیوں کو ذمہ دار مانتے ہوئے اسے پوری طرح سے مسترد کردیا۔ دوسری بڑی اہم بات جو ابھر کر سامنے آتی ہے وہ ہے پانچ ریاستوں کے چناؤ میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے صرف پایا ہی ہے کھویا کچھ نہیں ہے۔ اہم یہ ہے کہ اس چناؤ نتیجوں کا اثر اگلے سال ہونے والے اسمبلی چناؤ پر نظر آئے گا اور پھر اس کی گونج لوک سبھا چناؤ میں بھی سنائی دے سکتی ہے۔ پارٹی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ رہا ہے کہ اس نے نارتھ ایسٹ میں پہلی بار کسی ریاست میں چناوی جیت حاصل کی ہے اور وہ سرکار بنانے جارہی ہے۔ اس کے علاوہ اس نے کیرل جیسی ریاست میں بھی اپنا کھاتہ کھول لیا ہے۔ مغربی بنگال میں بھی پارٹی نے نہ صرف ووٹ بڑھایا ہے بلکہ اپنی پچھلی سیٹوں کی تعداد میں بھی اضافہ کیا ہے۔ بھاجپا کے لئے آسام کے نتیجے ایک طرح سے سنجیونی ہیں۔
یہ پہلی ریاست ہے جہاں لوک سبھا چناؤ کے بعد پارٹی نے نریندر مودی کے علاوہ پارٹی کے ہی نیتا کا چہرہ پیش کیا۔ پارٹی کا یہ داؤ کامیاب رہا۔ اس سے پہلے بہار میں بغیر چہرے کے اور دہلی میں باہر سے کرن بیدی کو لاکر چناؤ لڑنے سے بھاجپا کی کراری ہار ہوئی تھی لیکن سروانندسونوال کو خاص طور سے وزیر اعلی کے امیدوار کے طور پر پیش کر پارٹی نے داؤں چلا اور یہ پوری طرح کامیاب رہا۔ یہ اس معنی میں بھی اہم ہے کہ لوک سبھا چناؤ میں بھاری جیت حاصل کرنے کے باوجود یہ سوال اٹھتے رہے ہیں کہ بھاجپا نہ تو نارتھ ایسٹ میں ہے اور نہ ہی ساؤتھ اس لئے اسے نیشنل پارٹی کیسے کہا جاسکتا ہے؟ بھاجپا کا اب 13 ریاستوں میں حکومت قائم ہوچکی ہے جو دیش کی 43.1 فیصد آبادی بنتی ہے۔ 5 ریاستوں کے چناؤ میں سے بھلے ہی بی جے پی ایک ریاست میں اپنی سرکار بنانے میں کامیابی پائی ہو لیکن ان نتیجوں کا سب سے بڑا اثر پی ایم مودی اور پارٹی صدر امت شاہ کی جوڑی پر نظرآئے گا۔ دہلی اور بہار میں ملی کراری ہار کے بعد مودی کے کرشمے اور شاہ کی سیاست سمجھ کر سوال اٹھنے لگے تھے لیکن اب دونوں کی پوزیش مضبوط ہوتی نظر آئے گی۔اور اب بات کرتے ہیں علاقائی پارٹیوں کی بڑھتی سیاست حیثیت پر۔
ہمارا خیال ہے کہ کانگریس کا کمزور ہونا دیش کے مفاد میں ہیں ہے جو سیاسی خلا کانگریس چھوڑتی جارہی ہے اسے ممتا بنرجی اور جے للتا جیسی لیڈر بھرتی جارہی ہیں۔ مغربی بنگال میں ووٹروں نے ممتا بنرجی پر دوبارہ بھروسہ جتایا ہے اور یہ صاف پیغام دیا ہے کہ وہاں جنتا کے بیچ جاکر جو کام کرے گا، وہی راج کرے گا۔ تاملناڈو میں این جی آر کے بعد کوئی حکمراں پارٹی مسلسل دوسری بار اقتدار میں لوٹی ہے تو اس کا سہرہ جے للتا کو ہی جاتا ہے۔ جے للتا چھٹی بار صوبے کی وزیر اعلی بنیں گی۔ جے للتا کی جیت کے پیچھے ان کی فلاحی اسکیموں کا اثر صاف دکھائی دیا، ’اماں کینٹین‘ ، ’اماں اوشدھیالیہ‘، ’راشن رعایتی کارڈ‘ والوں کو 20 کلو چامل، مفت مکسر گرائنڈر،دودھ دینے والی گائے۔بکریوں کو بانٹنا اور عورتوں کے لئے منگل سوتر کے لئے 4 گرام سونا دینا‘ جیسی اسکیمیں رنگ لائی ہیں۔ مرکزی سرکار کو بھی ترقیاتی اسکیموں کے ساتھ فلاحی اسکیموں پر بھی اماں سے سبق لینا چاہئے۔ لگاتار دو چناؤ جیتنے کے بعد ممتا بنرجی اور جے للتا کی مرکز میں دھمک بڑھنا طے مانا جارہا ہے۔ مرکزی سرکار کو ترنمول اور انا ڈی ایم کے سے راجیہ سبھا میں اٹکے پڑے جی ایچ ٹی سمیت کئی اہم بلوں پر حمایت کی ضرورت پڑے گی۔ کانگریس نے مغربی بنگال میں ممتا اور تاملناڈو میں جیہ کے خلاف چناؤ لڑا تھا۔ ایسے میں یہ مانا جاسکتا ہے کہ راجیہ سبھا میں ترنمول کانگریس اور انا ڈی ایم کے کے رشتے کانگریس کے ساتھ پہلے جیسے رہنا مشکل ہیں۔ایسے میں بھاجپا کو اس کا فائدہ ہوسکتا ہے کیونکہ پارٹی کے پاس راجیہ سبھا میں اکثریت نہیں ہے۔ پارٹی کو امید ہے کہ ممتا اور جیہ للتا اقتصادی اصلاحات میں مرکز کا ساتھ دے سکتی ہیں۔ ان دونوں ریاستوں میں نہ صرف ان دونوں لیڈروں نے اپنا جادو برقرار رکھا ہے بلکہ نئے ریکارڈ بھی قائم کئے ہیں۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں