سہارا بیل پر سبل اور سپریم کورٹ بینچ میں تلخ بحث

سرمایہ کاروں کے کروڑوں روپے لوٹانے میں ناکام رہے سبرت رائے 10 ہزار کروڑ کی ضمانت رقم جمع نہیں کرانے کے سبب پچھلے 2 سال سے تہاڑ جیل میں بند ہیں۔ انہیں عدالت نے 4 مارچ 2014 کو جیل بھیجا تھا۔ سپریم کورٹ نے پچھلے سال جون میں کہا تھا کہ سہارا گروپ کو سرمایہ کاروں کو36 ہزار کروڑ روپے لوٹانے ہوں گے۔ سہارا کا معاملہ منگلوار کو پھر سپریم کورٹ پہنچا۔ سہارا چیف سبرت رائے کی بار بار ضمانت کی اپیل پر کورٹ نے سخت رویہ اپنالیا۔ چیف جسٹس کی سبراہی والی تین ججوں کی بنچ نے سہارا کو بڑا جھٹکا دیتے ہوئے کہا کہ ضمانت چاہئے تو پیسہ لائیے۔اس کے لئے کورٹ نے سے بی کو سہارا کی ان 86 پراپرٹیوں کو بیچنے کی اجازت دے دی ہے جن کے مالکانہ حق کو لیکر کوئی تنازعہ نہیں ہے۔ سہارا کئی بار وقت دینے کے باوجود پراپرٹی بیچ کر سرمایہ کاروں کی رقم واپس کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس سے پہلے منگلوار کو سماعت کے دوران سہارا گروپ کی طرف سے پیش ہوئے وکیل کپل سبل نے کئی دلیلیں رکھیں۔ اس پر چیف جسٹس ناراض ہوگئے۔ دلیلوں کے دوران سبل نے کہا کہ سہارا چیف سبرت رائے کو جیل میں دو سال سے زیادہ ہوگئے ہیں جبکہ ان کے خلاف کوئی کیس بھی نہیں ہے اور نہ ہی توہین عدالت کی کارروائی کی گئی ہے۔ 
آپ بھلے ہی ریسیور مقرر کردیجئے، لیکن دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی شخص بغیر قصور کے جیل میں رہے۔ اس پر ناراضگی جتاتے ہوئے چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر نے کہا کہ آپ بحث کیجئے، ہمیں بھاشن نہ دیں۔دنیا میں ایسا کوئی شخص نہیں ہوتا کہ کوئی شخص کہے کہ ان کے پاس 1.87 لاکھ کروڑ روپے ہیں، لیکن وہ ضمانت کیلئے 10 ہزار کروڑ روپے نہیں دے سکتا۔ ہم نے سبرت رائے کو پورا موقعہ دیا اور مدد بھی کی لیکن وہ ہر بار یہی کہتے رہے کہ پراپرٹی کے لئے خریدار نہیں مل رہے ہیں۔ہم ریسیور مقرر کرنے پر آپ کو سنیں گے۔ آپ پراپرٹی بیچنے میں ناکام رہے ہیں۔ ریسیور مقرر کرنا ہی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اس پر کپل سبل نے کہا ہمارے موکل سبرت رائے کو جیل میں اور سہولیات ملنی چاہئیں۔ اس پر بینچ نے کہا زیادہ سہولیات۔۔۔ کس لئے؟ آپ کہہ رہے ہیں کہ بازار دھیما ہے کوئی خریدار نہیں مل رہا ہے پھر سہولیات کیوں چاہئیں۔ اس کے بعد بینچ نے سیبی سے کہا کہ وہ40 ہزار کروڑ روپے اکٹھا کرنے کے لئے سہارا گروپ کی پراپرٹی بیچنا شروع کردیں لیکن اگر متعلقہ علاقہ کے سرکل ریٹ کے 50 فیصدی دام کی قیمت بولی ملے تو اس پراپرٹی کی فروخت نہ کی جائے۔ معاملے کی اگلی سماعت27 اپریل کو ہوگی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟