ڈاکٹر پنکج نارنگ کے قتل کا ذمہ دار کون

پریم اور بھائی چارگی کے رنگوں میں لڈو کا رنگ گھل جانے سے اس سال کی ہولی کچھ زیادہ ہی بدرنگ ہوگئی۔ اترپردیش میں جہاں ہولی نے اس سال 47 لوگوں کی جان لے لی وہیں دہلی کے ایک ڈاکٹر کو ہڑدنگیوں نے بے رحمانہ طریقے سے پیٹ کر موت کی نیند سلا دیا۔ وکاس پوری کی گلی میں دھیمی موٹر سائیکل چلانے کی بات کہنے پر ملزمان نے ایک ڈاکٹر کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالا۔ اس واردات کے بارے میں کچھ الگ الگ بیان سامنے آئے ہیں لیکن جو اہم بات ابھر کر سامنے آتی ہے اس کے مطابق سڑک پر ایک معمولی کہا سنی نے انتہائی پر تشدد رنگ لے لیا کہ ایک فریق نے لاٹھیوں اور لوہے کی چھڑوں سے مسلح چھوٹی موٹی بھیڑ اکھٹی کرلی۔ جس نے پیٹ پیٹ کر ڈینٹسٹ ڈاکٹر پنکج نارنگ کو مار ڈالا۔ یہ ایک ایسا معاملہ تھا جس شانتیسے سلجھایا جاسکتا تھا لیکن اس نے جس طرح کا مشتعل رخ اختیار کرلیا ویسے واقعات اب اتفاقی نہیں بلکہ عام ہوگئے ہیں۔ چھوٹی ہولی کے دن دہلی میں مارے گئے ڈاکٹر نارنگ کا قصور بس اتنا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ گلی میں کرکٹ کھیل رہے تھے۔ اس دوران گیند پاس سے گزر رہے بائک سوار کو جا لگی جس پر دونوں میں جھگڑا ہوا، اس کے کچھ دیر بعد ہی بائیک والے نے اپنے درجن بھر ساتھیوں کے ساتھ ڈاکٹرکے گھر پر حملہ بول دیا اور اسے لاٹھی ڈنڈوں سے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا۔ ڈینٹسٹ پنکج نارنگ کے بے رحمانہ قتل کے بعد سوشل میڈیا میں افواہوں نے طول پکڑ لیا۔ وارادت کو فیس بک، ٹوئٹر اور دیگر سائٹس پر مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی تھی۔ پولیس کے ساتھ ساتھ خفیہ محکمے کے بھی کان کھڑے ہوگئے۔ نتیجتاً سنیچر کو خود پولیس افسروں کو آگے آنا پڑا اور سوشل سائٹس پر چل رہی افواہوں پر غور نہ کرنے کی صلاح دینی پڑی۔پولیس افسروں نے بتایا کہ اس واردات میں جو 9 ملزم پکڑے گئے ہیں ان میں سے 5 ہندو ہیں، مسلمان ملزم اترپردیش کا ہے نہ کہ بنگلہ دیش کا، جیسا کہ میڈیا میں افواہیں پھیلی ہوئی ہیں۔ واردات میں شامل 9 ملزمان کو پکڑا جاچکا ہے جن میں 4 نابالغ اور 1 خاتون شامل ہے۔ غصے یا رنجش میں جان لینے کی یہ واردات پہلی بار نہیں ہوئی ہے۔ روزانہ کہیں نہ کہیں اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں۔ کبھی سگریٹ نہیں دینے پر تو کبھی پراٹھا نہیں دینے جیسی چھوٹی بات پر قتل کردیا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ لوگوں میں اتنا غصہ کیوں ہے؟ جو لوگ قانون ہاتھ میں لینے سے باز نہیں آتے ۔ اس کا سیدھا جواب ہے اس بھیڑ بھاڑ والے شہر میں لوگ بیحد کشیدگی میں رہتے ہیں۔ ایسے میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر بیحد غصے میں آکر ایسی واردات انجام دے جاتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟