آخر کار جموں و کشمیر میں پی ڈی پی بھاجپاسرکار بن گئی

آخر کار لمبے انتظار اور شش و پنج کے بعد جموں و کشمیرمیں محبوبہ مفتی قیادت میں سرکار کے قیام کا راستہ صاف ہوگیا ہے۔ محبوبہ مفتی جموں و کشمیر کی پہلی مہلا وزیر اعلی بنیں گی۔ پچھلے سال 7جنوری کو ان کے والد اور سابق وزیر اعلی مفتی محمد سعید کے انتقال کے بعد محبوبہ نے جو اڑیل رویہ اختیار کیا تھا اس سے جموں و کشمیر ایسے سیاسی تعطل میں پھنس گیا تھا کہ لگتا تھا کہ اب صوبے میں سرکار نہیں بنے گی۔ جنوری میں مفتی محمد سعید کے انتقال کے بعد سے وزیر اعلی کی کرسی خالی ہوگئی تھی یہ خلا پی ڈی پی کو بھرنا تھا اور پارٹی میں اس کے لئے سب سے مضبوط دعویدار محبوبہ مفتی ہی تھیں، جو کہ اب ان کے اتفاق رائے سے انتخاب سے ظاہر ہے لیکن پہلے تو وہ یہ کہہ کر ٹالتی رہیں کہ وہ اپنے والد کی موت سے غمزدہ ہیں اور ایسے میں سرکار کی تشکیل کے لئے پہل نہیں کرنا چاہتیں۔ پھر انہوں نے یہ جتانا بھی شروع کردیا تھا کہ سرکار بنے اس سے انہیں گریز نہیں بھاجپا کو زیادہ ہے۔ مگر آہستہ آہستہ یہ صاف ہوتا گیا کہ ان کی ہچکچاہٹ کے پیچھے انہیں یہ لگ رہا تھا کہ بھاجپا سے اتحاد کے سبب وادی میں پی ڈی پی کا مینڈیٹ کم نہ ہوجائے۔ ڈھائی مہینے کی تاخیر میں پی ڈی پی بھاجپا اتحاد کے وجود کو لیکر ابھری قیاس آرائیوں کو اور ہوا دی۔ اس تاخیر نے کل ملا کر پی ڈی پی اور بھاجپا کے درمیان بھروسے میں کمی کو بھی ظاہر کیا۔ یہ تو سمجھ میں آنا تھا کہ ایک دوسرے کے خلاف چناؤ لڑنے کی وجہ پی ڈی پی اور بھاجپا نے مفتی محمد سعید کی قیادت میں سرکار بنانے کے لئے متفق ہونے میں ایک ماہ سے زیادہ وقت لگا تھا لیکن محبوبہ کی لیڈر شپ میں سرکار کے قیام میں ڈھائی ماہ کی دیری کا جواز سمجھ سے باہر ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ آخر کار محبوبہ کو عقل آئی اور انہوں نے اپنی رائے بدلی حالانکہ مخالفوں کا یہ سوال اٹھتا رہے گا کہ آخر کار سرکار جب بننی ہی تھی تو پھر ان ڈھائی مہینوں کا تعطل کیوں؟ یہ سوال واجب بھی ہے۔ اس بارے میں نہ تو پی ڈی پی نے کوئی بیان دیا اور نہ ہی بھاجپا نے بتایا کہ محبوبہ کیوں سرکار بنانے میں ہچک رہی ہیں۔ہاں محبوبہ نے یہ ضرور کہا تھا کچھ اشو ہیں، جن پر وہ اور بھاجپا اور مرکز سے واضح عہد نامہ چاہتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ محبوبہ کے رویئے کی وجہ سے ان کی پارٹی میں بھی ناراضگی پیدا ہورہی تھی۔ اس میں سب سے زیادہ درگتی بھاجپا کی ہوئی ہے۔ ایسا لگا کہ صرف بھاجپا سرکار بنانے کواتاولی ہے اور محبوبہ اسے بھاؤ نہیں دے رہی ہیں۔ آخر کار بھاجپا نے صاف کردیا کہ مفتی صاحب کے رہتے جو ایجنڈا فار ایلائنس بنا تھا وہ اس سے کم یا اس سے زیادہ کسی اشو پر تیار نہیں ہے۔ ممکن ہے اس کا نفسیاتی اثر پی ڈی پی کے اندر ہوا ہو۔ محبوبہ اور ان کے والد مفتی محمد سعید کے درمیان عمر اور تجربے کے فرق سے کوئی انکارنہیں کرسکتا۔عام طور پر مفتی صاحب تھوڑے نرم تھے، سمجھوتہ کرنے والے تھے جبکہ محبوبہ سخت مانی جاتی ہیں۔ نئے اتحاد کو کامیاب بنانے کے لئے دونوں پارٹیوں کو تال میل قائم کرنا ہوگا۔ پی ڈی پی اور محبوبہ کا ایجنڈا علیحدگی پسندوں اور بھارت مخالفین کے نظریئے کی بہت حد تک نمائندگی کرتا ہے۔ دہشت گردوں اور حریت کے تئیں پی ڈی پی کے نظریئے میں اور بھاجپا کے نظریئے میں فرق ہے ،پھر پی ڈی پی کی ساری توجہ وادی پر رہتی ہے جبکہ بھاجپا کو جموں و لداخ خطے کی ترقی پر توجہ دینی ہوگی۔مفتی کی سرکارمیں جموں خطہ کو نظر انداز ہوا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ نئی حکومت صوبے کے سبھی حصوں پر توجہ دے گی، ویسے جموں و کشمیر جیسی ریاست میں ایک چنی ہوئی سرکار ضروری ہے۔ اس کے نہ بننے سے جو عدم استحکام پیدا ہورہا تھا اس سے سبھی کو بولنے کا موقعہ مل رہا تھا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟