اتراکھنڈ کی سیاست میں نیا موڑ

اتراکھنڈ میں 15 سال کے اندر4 حکومتیں اور 8 وزرائے اعلی کی رخصتی ہوئی۔ یہ سیاسی عدم استحکام کی صورتحال اتراکھنڈ میں بیاں ہوتی ہے۔ ریاست میں پہلی مرتبہ صدر راج نافذ ہوا ہے تو اس کے لئے ایک اسٹنگ آپریشن، بھاجپا اور کانگریسی سبھی ذمہ دار ہیں۔ مرکز کی سفارش پر ایتوار کے روز صدر نے وہاں راشٹرپتی راج لگادیاہے۔ اسمبلی بھی معطل کردی گئی ہے۔ ریاست میں 9 کانگریسی ممبران کے باغی ہونے کے بعد یہ حالات بنے ہیں۔ ہریش راوت کی رہنمائی والی کانگریس سرکار کو28 مارچ کو اکثریت ثابت کرنی تھی۔ وزارت داخلہ کے مطابق ہریش راوت کی نیوز چینل ’’پلس‘‘ کے چیف امیش کمار کے ذریعے کئے گئے اسٹنگ میں ہریش راوت کا بیڑا غرق کردیا۔ اسٹنگ میں راوت کو ممبران اسمبلی کو خریدتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ جانچ کے لئے یہ سی ڈی ایف ایس ایل لیب چنڈی گڑھ بھیجی گئی۔ جہاں یہ صحیح پائی گئی۔یہ ٹھیک ہے کہ ہریش راوت سرکار کو اکثریت ثابت کرنے کے لئے دی گئی میعاد سے ایک دن پہلے اتراکھنڈ میں اسمبلی کو معطل کرکے صدر راج لگانے کا مرکز کا فیصلہ تھوڑا چونکانے والا ضرور ہے لیکن اس فیصلے اور حالات کے لئے ریاست کی کانگریس کی اندرونی کھینچ تان اور شش و پنج، متر گھات اور موقعہ پرستی کوئی بھی کم ذمہ دار نہیں ہے۔ یہ پورا واقعہ اقتدار کے لئے کسی بھی حد تک چلنے جانے کی ایک اور تکلیف دہ مثال ہے۔ آج کانگریس بھلے ہی صدر راج لگانے کو جمہوریت کا قتل بتائے لیکن قریب چار سال پہلے وجے بہوگنا کو وزیر اعلی بنا کر اسی نے اس صورتحال کی کہانی لکھی تھی۔ صرف یہ ہی نہیں لاکھوں لوگوں اور مظاہرین کی جدوجہد سے بنے اتراکھنڈ میں اقتدار حاصل کرنے کیلئے تب بولیاں لگانے کی بات کی جانے لگی تھی، بلکہ اتراکھنڈ کی کانگریس سرکار کو جلد ہی پریوار واد، گروپ بندی اور باہری بنام پہاڑی کی اندرونی لڑائی میں بھی تبدیل ہوتے دیکھاگیا۔ اتراکھنڈ میں سیاسی بحران گہرا ہوگیا ہے۔ ریاست میں صدر راج کا اعلان کردیا گیا ہے جس سے بی جے پی اور کانگریس کے باغی خوش ہیں۔ کانگریس کے 9 ممبران کی ممبر شپ منسوخ کرنے کو کانگریس صحیح قدم قراردے رہی ہے لیکن دونوں ہی فریقین عدالت چلے گئے ہیں۔سیاسی اتھل پتھل کے بیچ ہر کوئی آئین کی دہائی دے رہا ہے۔ جہاں بی جے پی اتراکھنڈ میں کانگریس پر آئین سے کھلواڑ کا الزام لگا رہی ہے وہیں کانگریس بی جے پی اور مرکزی سرکار پر آئین کا قتل کرنے کا الزام لگا رہی ہے۔ آئینی ماہرسبھاش کشیپ صدر راج کو جہاں آئینی قدم بتا رہے ہیں وہیں سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ایڈوکیٹ کے۔ ٹی۔ ایس۔ تلسی اسے آئین کی دھجیاں اڑانا قرار دے رہے ہیں۔ سبھاش کشیپ نے کہا کہ دفعہ356 کے تحت اگر صدر مطمئن ہوجائیں کہ ریاست آئین کے مطابق نہیں چل رہی ہے تو وہ صدر راج لگا سکتے ہیں اور اتراکھنڈ میں بھی یہی ہوا ہے۔ یہ پوری طرح جائز ہے۔ انہوں نے اسپیکر پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اگر 18 مارچ کو اتراکھنڈ اسمبلی میں ممبران نے کراس ووٹنگ کی مانگ کی تھی تو اسپیکر کو کراس ووٹنگ کرانی چاہئے تھی۔ دوسری طرف کے ۔ٹی۔ ایس ۔ تلسی کا کہنا ہے کہ صدر راج لگانے کا قدم مرکز کا تاناشاہی بھرا رویہ ہے۔ انہوں نے کہا سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اگر گورنر نے اکثریت ثابت کرنے کی میعاد طے کردی ہے تو انتظار کیا جانا چاہئے۔ پیر کو فلور آف دی ہاؤس میں جو بھی ہوتا اس کے بعد ہی کوئی قدم اٹھانا آئینی ہوتا۔لیکن فلور ٹیسٹ کے بغیر صدر راج تھونپنا غلط ہے۔ اب آگے کیا ۔صدر راج لگادیا ہے لیکن اسمبلی معطل نہیں کی گئی ہے۔ اگر کسی وقت گورنر کو یہ لگتا ہے کہ کسی پارٹی کے پاس اکثریت ہے اور وہاں سرکار بن سکتی ہے تو وہ نئی سرکار بنانے کے لئے انہیں مدعو کرسکتے ہیں۔ اگر انہیں لگتا ہے اس کا امکان نہیں رہ گیا ہے تو پھر وہ اسمبلی کو بھنگ کرکے نئے چناؤ کا اعلان کرسکتے ہیں۔کل ملاکر ہریش راوت کی اقلیتی سرکار کا جوڑ توڑ سے اقتدار میں بنا رہنا جتنا ٹریجڈی بھرا ہوتا اس موڑ پر بھاجپا کا وہاں سرکار بنانا یا اس سمت میں سوچنا بھی اتنا ہی بدقسمتی والا فیصلہ ہوگا۔ تازہ ترین اطلاع ہے کہ صدر راج کا معاملہ اتراکھنڈ ہائی کورٹ میں چلا گیا جہاں عدالت نے سماعت کرتے ہوئے ایک بڑا فیصلہ کیا ہے کہ ہریش راوت31 مارچ کو اسمبلی میں اپنی اکثریت ثابت کریں۔ اس دوران 9 باغی ممبران بھی موجود رہیں گے۔ اس سے اتراکھنڈ کی سیاست میں ایک نیا موڑ آگیا ہے۔ اب سرکار کی ایوان میں اگنی پریکشاہوگی اس کے بعد ہی اتراکھنڈ کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟