پیرس کے بعد اب بروسیلز
دہشت گردی نے ایک بار پھر یوروپ کو نشانہ بنایا ہے ،بلجیم کی راجدھانی بروسیلز کے ہوائی اڈے اور ایک میٹرو اسٹیشن پر منگلوار کو ہوئے سلسلہ وار بم دھماکوں میں کم سے کم34 لوگوں کی موت ہوگئی اور200 سے زیادہ زخمی ہوگئے۔ بروسیلز کو یوروپی یونین کی راجدھانی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس) نے حملہ کی ذمہ داری ہے۔ صرف چاردن پہلے بلجیم کی پولیس نے نومبر ہوئے پریس حملہ کے اہم سازشی صالح عبدالسلام کو بروسیلز کے میٹرو اسٹیشن کے پاس سے گرفتار کیا تھا۔ مانا جارہا ہے کہ یہ آتنکی حملہ اسی کا بدلہ ہے۔ بلجیم کے وزیر اعظم چارلس مائیکل نے بتایا کہ ہوائی اڈے پر ہوئے حملے میں فدائین شامل تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم جنگ کے حالات سے گزر رہے ہیں۔ ایئرپورٹ پر ہوئے آتنکی حملے میں بڑی تعداد میں ہندوستانی مسافر بال بال بچ گئے ہیں۔اس وقت بھارت کی پرائیویٹ ایئر لائنس جیٹ ایئر بیس کے کئی جہاز ہوائی اڈے پر موجود تھے۔ بم دھماکے سے 50 منٹ پہلے ایک جہاز ممبئی سے ایئرپورٹ پر اترا تھا جبکہ دہلی سے پہنچا ایک دوسرا جہاز حملے کے 10 منٹ بعد اترا۔ سبھی مسافروں کو ہوائی اڈے سے بحفاظت باہر نکال لیا گیا۔ حالانکہ وہاں 600 سے زیادہ ہندوستانی پھنسے تھے، جس جگہ دھماکہ ہوا وہ یوروپی یونین کی اہم بلڈنگ سے تھوڑی دور ہے۔ ایئرپورٹ پر دھماکے امریکی ایئرلائنس کے روانگی ایریا کے اہم ہال میں ہوئے۔ دھماکے اتنے زبردست تھے کہ پورا ہال تباہ و برباد ہوگیا۔ پاس کھڑے جہازوں کی کھڑکیو ں کے شیشے بھی ٹوٹ گئے۔ پولیس کو تلاشی کے دوران ایک بم ملا جسے ناکارہ کردیا گیا۔ بغیر استعمال دھماکو سامان سے لدی بیلٹ اور ایک حملہ آور کی لاش کے پاس سے کلاشنکوف رائفل بھی ملی ہے۔ چشم دید گواہوں نے بتایا کہ بم دھماکوں سے پہلے حملہ آوروں نے فائرننگ کی اور عربی زبان میں نعرے بھی لگائے۔ فوج نے ایک آتنکی کو مار گرایا۔ مصر کے روزنامہ اخبار’’الوطن‘‘ نے اسلامک اسٹیٹ( آئی ایس) کے حوالے سے یہ بروسیلز حملہ کی ذمہ داری لی ہے۔ پچھلے دنوں شام میں خانہ جنگی کے چلتے لاکھوں مہاجرین یوروپ میں پناہ لینے پہنچے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ نے ان مہاجرین کے درمیان اپنے فدائی بھی یوروپ میں داخل کرادئے ہیں۔ آج پورا یوروپ دہشت گردی کے خطرے کا شکار ہے۔ کچھ ہی وقت پہلے پیرس میں بھی حملہ ہوا۔ بھارت تو بہت برسوں سے اسلامی آتنک واد کا شکار رہا ہے۔یہ کتنا خطرناک ہے یہ اب یوروپ کو بھی احساس ہونے لگا ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں