’کانگریس مکت بھارت‘ کا تعبیر ہوتا بی جے پی کا خواب

اترا کھنڈ میں جاری سرکار گرانے اور بچانے کا کھیل صرف ایک ہی ریاست کی سیاست تک محدود رہنے والا واقعہ نہیں ہے۔دراصل یہاں اقتدار کی لڑائی دیش کی سب سے پرانی اور سب سے زیادہ وقت تک راج کرنے والی کانگریس پارٹی کے وجود سے جڑ گئی ہے۔ اتراکھنڈ میں اگر ہریش راوت اپنی اکثریت ثابت کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو کانگریس کے ہاتھ سے نکلی ریاستوں کی لسٹ میں ایک اور نام جڑ جائے گا اور ’کانگریس مکت بھارت‘ کے ایجنڈے پر کام کے لئے بی جے پی کو زیادہ حوصلہ ملے گا۔ لوک سبھا چناؤ کے وقت بی جے پی نے جب ’کانگریس مکت بھارت ‘کا نعرہ دیا تھا تو کانگریس کی طرف سے طنز کیا گیا تھا کہ ہمیں برطانوی حکومت بھی ختم نہیں کر پائی تو بی جے پی کی کیا بساط، جو صرف کچھ ریاستوں میں ہی پہچان رکھتی ہے؟ لیکن اب جب ٹھنڈے دماغ سے غور کریں اور دیکھیں تو کانگریس کے ہاتھ سے ایک ایک کرکے ریاستیں نکلتی جارہی ہیں اور پارٹی سمٹتی جارہی ہے۔ دہلی اور مکمل ریاست کا درجہ حاصل یافتہ 29 ریاستوں کی سیاسی تصویر کو دیکھا جائے تو کانگریس کی حکومت صرف7 ریاستوں، کرناٹک، ہماچل، آسام، اتراکھنڈ، منی پور، میگھالیہ، میزورم تک سمٹ کر رہ گئی ہے۔ بہار میں وہ تکنیکی طور سے اقتدار میں سانجھے دار تو ہے لیکن وہاں اس کا سیاسی مستقبل جے ڈی یو ،آر جے ڈی کی بیساکھی پر ٹکا ہے۔ عام چناؤکے بعد جتنے بھی راجیوں میں اسمبلی چناؤہوئے، کانگریس کو اقتدار گنوانا پڑا ہے۔ ابھی تک ایک بھی ریاست میں اسے کامیابی نہیں ملی ہے۔ کانگریس بھلے ہی 1977,89,96,98 اور 1999 میں مرکزی اقتدار سے باہر رہی ہو لیکن کرناٹک ، مہاراشٹر، راجستھان، مدھیہ پردیش، پنجاب، کیرل، دہلی جیسی اہم ریاستوں میں اس کی حکومت رہی ہے۔ 2014 میں مرکزی اقتدار سے بے دخلی کے بعد یہ کانگریس کے لئے پہلا موقعہ ہے جب وہ اہم ترین ریاستوں سے غائب ہوگئی ہے۔ بیشک بی جے پی کے لئے یہ سکون کی بات ہے۔ بی جے پی کو ’’کانگریس مکت بھات‘‘ کا ایجنڈہ پورا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ کانگریس کے اس الزام میں دم ہوسکتا ہے کہ مرکزی سرکار اس کے زیر انتظام ریاستوں میں عدم استحکام پیدا کر وہاں اپنی حمایت والی سرکار بنانا چاہتی ہے، لیکن اس سوال کا جواب بھی کانگریس کو دینا ہوگا کہ وہ اپنے گھر کے کیل کانٹے درست کیوں نہیں کر پا رہی ہے، جس کی وجہ سے بی جے پی کو گھس پیٹھ کرنے کا موقعہ مل رہا ہے؟ کانگریس کے لئے پہلی ضرورت ہے اتراکھنڈ کی سرکار بچانا تاکہ اس کے ہاتھ سے ایک اور ریاست نہ نکل جائے۔ کانگریس کے لئے آگے کا راستہ بھی آسان نہیں ہے۔ آسام میں اگلے مہینے چناؤ ہیں جہاں پچھلے15 برسوں سے کانگریس کی حکومت ہے۔ ابھی تک تو تجزیہ میں کہا جارہا ہے کہ اقتدار میں لوٹنا کانگریس کے لئے چیلنج بھرا ہوگا۔ اب اگر اتراکھنڈ بھی کانگریس کے ہاتھ سے نکلتاہے تو کانگریس کا پاور بینک صرف کرناٹک تک محدود ہوکر رہ جائے گا۔ جہاں2018ء میں چناؤ ہیں۔ پچھلے مہینے وہ اروناجل گنوا چکی ہے۔ منی پور کے حالات بھی اچھے نہیں بتائے جاتے۔60 نفری منی پور اسمبلی کے چناؤ اگلے ماہ تجویز ہیں۔ اروناچل اور اتراکھنڈ میں بغاوت سے منی پور میں باغیوں کا حوصلہ بڑھنا فطری ہے۔ کبھی بھی وہاں سیاسی بحران کھڑا ہوسکتا ہے۔ ایک ایک کرکے ریاستوں میں اقتدار سے باہر ہورہی کانگریس کے لئے اپنا وجود بچانے کا سنگین بحران کھڑا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟