اتراکھنڈ اسمبلی میں اکثریت ثابت کرنی ہوگی

اکثر دیکھا گیا ہے کہ چھوٹی ریاستوں میں سیاسی عدم استحکام اکثر بنا رہتا ہے۔ ان ریاستوں میں سیاسی عدم استحکام کس طرح رہ رہ کر سر اٹھاتا ہے اس کی تازہ مثال ہے اتراکھنڈ۔ریاست میں ہریش راوت کی قیادت میں کانگریس حکومت بحران میں پھنس گئی ہے۔9 کانگریسی ممبران اسمبلی نے وزیر اعلی کے خلاف بغاوت کردی ہے۔ ہریش راوت سرکار کا مستقبل بھنور میں پھنسا ہے۔ چونکانے والی بات تو یہ ہے کہ باغی ممبران میں سے سابق کانگریسی وزیر اعلی وجے بہو گنا بھی شامل ہیں۔ یاد رہے کانگریس ہائی کمان نے اچانک وجے بہوگنا کو ہٹا کر ہریش راوت کو اس لئے اقتدار سونپا تھا کیونکہ وہ اپنے ہی ممبران کی ناراضگی سے لڑ رہے تھے۔ اب وہی صورتحال ہریش راوت کی بنی ہوئی ہے۔ ویسے اتراکھنڈ جب سے بنا ہے محض ایک ہی وزیر اعلی نے اپنی میعاد پوری کی ہے۔ اس بغاوت کے چلتے بھاجپا کو بھی اپناوزیر اعلی بدلنا پڑا تھا۔ دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ سیاسی پارٹیاں مینڈیٹ کا سنمان نہیں کرتیں۔راج کرنے کامینڈیٹ کسی کو ملتا ہے اور راج کوئی اور کرتا ہے۔ اسمبلی میں کل 71 (ایک نامزد) ممبر اسمبلی ہے۔ بغاوت سے پہلے کانگریس کے36 ، بھاجپا کے 28 اور 6 دیگرتھے۔ ایوان میں اکثریت کا نمبر 36 ہے۔ کانگریس کے9 باغیوں کی وجہ سے کانگریس کی ہریش راوت سرکار اقلیت میں آگئی ہے۔9 ممبران اسمبلی کی بغاوت کے بعد سنیچروار کو گورنر ڈاکٹر کرشن کانت نے ہریش راوت کو 28 مارچ تک ایوان میں اپنی اکثریت ثابت کرنے کی ہدایت دی ہے۔ اس سے سرکار کی برخاستگی گورنر راج نافذ ہونے جیسی قیاص آرائیوں پر روک لگ گئی ہے۔ دوسری طرف ہریش راوت نے کیبنٹ میٹنگ بلا کر اپوزیشن کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ سرکار نہ صرف وجود میں ہے بلکہ ٹھیک ٹھاک کام کررہی ہے۔ اس کے بعد وزیر اعلی راوت نے باغی ممبر ہرک سنگھ راوت کو وزیر کے عہدے سے برخاست کردیا ہے۔ کانگریس کے باغیوں کی ممبر شپ منسوخ کئے جانے کی تیاری بھی شروع ہوگئی ہے۔ کانگریس کے چیف وہپ اندرا ہردیش نے باغیوں کے خلاف کارروائی کی مانگ اسمبلی اسپیکر سے کی ہے۔ اس کے بعد تمام باغیوں کو وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ آئینی ماہر اور سیاسی مبصرین کے مطابق موجودہ حالات میں اسمبلی میں ہریش راوت کو اپنی اکثریت ثابت کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح باغیوں اور اپوزیشن کو ایوان میں ہی اپنی تعداد ثابت کرنی چاہئے۔ مینڈیٹ کی منمانی تشریح کو روکا جانا چاہئے اور سیاسی عدم استحکام کا موجودہ دور جلد سے جلد ختم ہونا چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟