ملکی بغاوت سے وابستہ قانون کا جائزہ

جے این یو کے کنہیا معاملے میں دیش دروہ کا معاملہ درج ہونے سے مانگ اٹھ رہی ہے کہ اس برطانوی دور کے قانون میں تبدیلی ہونی چاہئے۔ اس برطانوی عہد کے قانون میں تبدیلی کے لئے اورملکی بغاوت لفظ کی پھر سے تشریح کی جانی چاہئے۔ اس کے لئے مرکزی سرکار اور آئینی کمیشن نے ایک سب گروپ بنایا ہے۔ تبدیلی کے سیکٹرز کی پہچان کی جارہی ہے۔ مذہب کی بنیاد پر سماج کو بانٹنے کی کوشش کرنے والوں پر بھی سخت کارروائی کے بارے میں دفعات شامل کی جاسکتی ہیں۔ وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے کہا کہ سرکار نے کمیشن کو جلد رپورٹ سونپنے کے لئے کہا ہے۔ رپورٹ آنے کے بعد اس پر بحث کے لئے کل جماعتی میٹنگ بلائی جاسکتی ہے۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی معاملے کے بعد ملکی بغاوت قانون کی نئے سرے سے تشریح کرنے کے لئے چوطرفہ دباؤ کے چلتے مرکزی حکومت نے یہ فیصلہ لیا ہے۔ برطانوی عہد کے اس قانون (آئی پی سی کی دفعہ 124A) کو منسوخ کرنے کی مانگ اٹھ رہی ہے۔ آئینی کمیشن نے 42 ویں رپورٹ میں مانا ہے کہ ملکی بغاوت قانون میں خامی ہے، لیکن کمیشن نے اسے منسوخ کرنے کی سفارش نہیں کی تھی۔ اس کے بعد 2006 میں 156 ویں رپورٹ میں کمیشن نے ملکی بغاوت کی جگہ کوئی متبادل’’ لفظ‘‘ کی تجویز رکھی تھی لیکن اسے ختم کرنے کو نہیں کہا تھا۔
124A کو ایک ترمیم کے ذریعے 1870 میں آئی پی سی میں شامل کیا گیا تھا۔ملکی بغاوت معاملے میں سال 2014ء میں 47 مقدمے درج ہوئے اور ملکی بغاوت کے الزام میں بہار میں سب سے زیادہ 16 معاملے درج ہوئے اور 28 گرفتار ہوئے۔ راجیہ سبھا میں اس اشو پر ایک ضمنی سوال کے جواب میں وزیر مملکت داخلہ کرن ریجو نے بتایا کہ ملکی بغاوت قانون میں تبدیلی کی کارروائی 2012ء میں شروع کی گئی تھی تب وزارت داخلہ نے آئینی اور انصاف وزارت میں اس کی ترمیم کے لئے تجاویز مانگی تھی۔ انگریزوں کے زمانے کے ملکی بغاوت کے اس پرانے قانون کو ختم کر اس کی جگہ نیا قانون لانے پر راجیہ سبھا میں سبھی پارٹیاں ایک رائے نظر آئیں۔ کانگریس کے غلام نبی آزاد نے کہا کہ موجودہ شقات کے رہتے سرکار کے خلاف بولنے پر بھی راج دروہ کا مقدمہ ہوسکتا ہے ساتھ ہی مذہب کی بنیاد پر بھی سماج کو بانٹنے کی کوشش کو ملکی بغاوت قانون کے اندر لایا جانا چاہئے۔ وزیر داخلہ نے جواب دیا کہ مذہب کے نام پر لوگوں کو بھڑکانے پر سخت کارروائی کی شقات موجود ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ریاستی سرکار سے بھی اپیل کررہے ہیں کہ ایسے معاملوں میں سخت کارروائی ہو۔ شیو سینا کے ممبر انل ڈیسائی نے کہا کہ کھلے عام ملک مخالف نعرے لگتے ہیں اس لئے اس قانون میں تبدیلی کرکے اسے سخت بنانا ضروری ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!