سی بی ایس ای کے 12 ویں کے ریاضی پیپر پر چھڑا تنازعہ

مسلسل چوتھے برس سینٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن (سی بی ایس ای) کا 12 ویں ریاضی کا پیپر سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔ 14 مارچ کو ہوا پیپر اتنا مشکل تھا کہ اسے تین گھنٹے میں حل نہیں کیا جاسکتا تھا۔ طلبا کو تو چھوڑیئے اساتذہ تک مانتے ہیں کہ وہ بھی اس سوال نامے کو تین گھنٹے میں پورا نہیں کرسکتے اس لئے معاملہ تو پارلیمنٹ میں بھی اٹھا اور طلبا کی پریشانی یہ ہے کہ کورس سے باہر کے سوال پیپر میں پوچھے گئے۔ ایسے سوال 8 سے10 نمبر کے تھے جبکہ بورڈ کے حکام اس سے انکار کرتے ہیں۔ وہیں سب سے بڑا سوال یہ بھی ہے کہ جب پرچہ بنانے کی کارروائی چھ مہینے پہلے شروع ہوجاتی ہے تو ایسی گڑ بڑی کیوں ہوتی ہے؟ خاص طور پر ہر سال ایسا ہی ہوتا ہے۔ 2015ء میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ پچھلے سال کی غلطیوں کے باوجود پیپر سیٹ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی بحث تک سی بی ایس ای نہیں کررہا ہے۔ 2013 ء میں پیپر بہت مشکل آیا تھا اور طلبا نے اس کی شکایت کی تھی۔ ریاضی انتہائی اہم سبجیکٹ ہے۔ انجینئرنگ کے علاوہ بہت سوں کے لئے بھی حساب کا ایک اہم مضمون ہے لیکن آخری وقت میں سوال نامے کے پیٹرن میں تبدیلی کر طلبا کی مشکلیں بڑھا رہا ہے۔نیشنل ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ٹریننگ کونسل (این سی آر ٹی) کی طرف سے قومی سطح پر کروائے گئے ایک سروے میں انگریزی، ریاضی، سائنس مضامین میں زیادہ تر ریاستوں کے طلبا کمزور ہیں۔ دہلی، گجرات سمیت 17 ریاستوں کے طلبا کی انگریزی قومی سطح پر تناسب کم ہے جبکہ سائنس میں تو حالت اور بھی خراب ہے۔ دیش بھر کے 10 ویں زیر تعلیم طلبا ریاضی سے ڈرتے ہیں اس کا انکشاف بھی این سی آر ٹی کی ذریعے کئے گئے اس سروے سے سامنے آیا ہے۔
ریاضی کے امتحان میں دیش کے طالبعلموں کے ذریعے تناسب حصول نمبر 40 فیصدی ہے۔ 17 ریاستی ایسی ہیں جہاں اس مضمون میں طلبا 35 یا اس سے کم فیصدی نمبر حاصل کرتے ہیں۔ وہیں ایک بھی ریاست ایسی نہیں جہاں طلبا کا تناسب 60فیصدی سے زیادہ ہے۔ سی بی ایس ای بورڈ کی بات کریں تو 10 ویں کے طالبعلموں کے حاصل کرنے والے نمبر50 فیصدی ہیں جبکہ اس سروے میں سب سے آگے ہے آئی سی ایس ای کے بچے۔خبر ہے کہ سی بی ایس ای نے 12 ویں کے اس ریاضی پیپر میں امتحان دینے والوں کی پریشانی کو دیکھتے ہوئے نمبر دینے کی اسکیم میں رعایت دینے پر غور کررہی ہے۔ یہ رعایت مضمون ماہر کمیٹی کے ذریعے سے دی جائے گی۔ سی بی ایس ای کی پی آر او رما شرما نے بتایا کہ سبھی مضمون کے پیپر کے بعد ایک ماہر کمیٹی مارکنگ اسکیم کا تعین کرتی ہے۔ طلبا کا مستقبل اس سے سیدھا جڑتا ہے اور امید کرتے ہیں کہ طلبا کے ساتھ انصاف ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟