روسی صدر ولادیمیرپوتن کا باہمت اور پائیدار فیصلہ
روسی صدر ولادیمیر پوتن کا اچانک شام سے اپنے فوجیوں کی واپسی کا اعلان ان کے ذریعے ایک جوا کھیلا گیا ہے اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس علاقے میں مستقل امن کے قیام کی سمت میں ایک قدم ہے۔ روسی فوجیوں کی مکمل واپسی کی کوئی میعاد وقت ابھی طے نہیں کیا گیا ہے۔باوجود اس کے پوتن کی یہ پہل کافی اہم مانی جاسکتی ہے۔ پوتن نے یہ فیصلہ شام کے صدر بشرالاسد سے فون پر بات کرنے کے بعد لیا ہے۔بتایا جارہا ہے کہ اسد نے بھی اپنی منظوری دے دی ہے تبھی یہ فیصلہ لیا گیا ہے۔
منگلوار کو روسی وزیر دفاع نے بتایا کہ روس نے شام سے اپنے فوجی سازو سامان کو واپس لانے کی کارروائی شروع کردی ہے۔ پوتن نے شام میں یہ قدم اٹھا کر ایک جوا کھیلا ہے۔انہوں نے اب باقی دنیاکو یہ بھی پیغام دیا ہے کہ روس شام میں امن چاہتا ہے اب امریکہ سمیت دیگر ملکوں کو پہل کرنی ہوگی۔ روسی صدر کو یہ معلوم تھا کہ وہ شام میں زیادہ وقت تک نہیں ٹک سکتے۔ وہ شام کو دوسرا افغانستان نہیں بنانا چاہتے اس لئے انہوں نے موقعہ پاتے ہی روسی فوج کی واپسی کا اعلان کردیا۔ یہ اعلان ٹھیک اس وقت آیا ہے جب جنیوا میں شام امن مذاکرات ہونے والے ہیں۔ ڈپلومیٹک حلقوں میں روس کے اس اعلان کو چونکانے والا مانا جارہا ہے۔ اس موقعہ پر پوتن نے امریکی صدر براک اوبامہ سے بھی بات چیت کی ہے۔ خبر ہے کہ دونوں لیڈروں نے اس خطے میں جاری تنازع کا سیاسی حل تلاش کرنے کی کارروائی تیز کرنے پر زور دیا ہے۔ قیام امن کی کوشش کتنی کامیاب ہوگی یہ تو ابھی نہیں کہا جاسکتا لیکن اس میں دو رائے نہیں کہ پوتن اور شام میں فوجی مداخلت کا فیصلہ جتنا ہمت والا تھا، فوجی کی واپسی شروع کرنے کا فیصلہ اتناہی سنجیدگی بھرا ہے۔
6 مہینے پہلے شام میں فوج بھیجنے کے پوتن کے فیصلے کے بارے میں چاہے جو بھی پہلو ہوں اس میں شبہ نہیں کہ آئی ایس آئی ایس جیسی خطرناک تنظیم کی لگاتار بڑھتی طاقت پر کارگر طریقے سے روک لگانے میں اس سے کافی مدد ملی ہے۔ پوتن کے اس قدم پر شام کے صدر بشر الاسد پر بھی دباؤ بنے گا۔ انہیں ہٹانے کی مانگ امریکہ سمیت کئی دیش کررہے ہیں۔ پوتن ان کی حمایت کررہے ہیں اب جنیوا میں شام نے جنگ بندی کے لئے امن مذاکرات ہورہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے روس کی تعریف کرتے ہوئے اسے امن مذاکرات کے لئے ایک مثبت قدم بتایا ہے۔ بہرحال فوج کی واپسی کے اس فوجی اور باہمت فیصلے کی پائیداری اسی میں ہے کہ ساری بین الاقوامی طاقتیں اب شام کے خلاف تشدد کے مسئلے کو حل کریں۔
منگلوار کو روسی وزیر دفاع نے بتایا کہ روس نے شام سے اپنے فوجی سازو سامان کو واپس لانے کی کارروائی شروع کردی ہے۔ پوتن نے شام میں یہ قدم اٹھا کر ایک جوا کھیلا ہے۔انہوں نے اب باقی دنیاکو یہ بھی پیغام دیا ہے کہ روس شام میں امن چاہتا ہے اب امریکہ سمیت دیگر ملکوں کو پہل کرنی ہوگی۔ روسی صدر کو یہ معلوم تھا کہ وہ شام میں زیادہ وقت تک نہیں ٹک سکتے۔ وہ شام کو دوسرا افغانستان نہیں بنانا چاہتے اس لئے انہوں نے موقعہ پاتے ہی روسی فوج کی واپسی کا اعلان کردیا۔ یہ اعلان ٹھیک اس وقت آیا ہے جب جنیوا میں شام امن مذاکرات ہونے والے ہیں۔ ڈپلومیٹک حلقوں میں روس کے اس اعلان کو چونکانے والا مانا جارہا ہے۔ اس موقعہ پر پوتن نے امریکی صدر براک اوبامہ سے بھی بات چیت کی ہے۔ خبر ہے کہ دونوں لیڈروں نے اس خطے میں جاری تنازع کا سیاسی حل تلاش کرنے کی کارروائی تیز کرنے پر زور دیا ہے۔ قیام امن کی کوشش کتنی کامیاب ہوگی یہ تو ابھی نہیں کہا جاسکتا لیکن اس میں دو رائے نہیں کہ پوتن اور شام میں فوجی مداخلت کا فیصلہ جتنا ہمت والا تھا، فوجی کی واپسی شروع کرنے کا فیصلہ اتناہی سنجیدگی بھرا ہے۔
6 مہینے پہلے شام میں فوج بھیجنے کے پوتن کے فیصلے کے بارے میں چاہے جو بھی پہلو ہوں اس میں شبہ نہیں کہ آئی ایس آئی ایس جیسی خطرناک تنظیم کی لگاتار بڑھتی طاقت پر کارگر طریقے سے روک لگانے میں اس سے کافی مدد ملی ہے۔ پوتن کے اس قدم پر شام کے صدر بشر الاسد پر بھی دباؤ بنے گا۔ انہیں ہٹانے کی مانگ امریکہ سمیت کئی دیش کررہے ہیں۔ پوتن ان کی حمایت کررہے ہیں اب جنیوا میں شام نے جنگ بندی کے لئے امن مذاکرات ہورہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے روس کی تعریف کرتے ہوئے اسے امن مذاکرات کے لئے ایک مثبت قدم بتایا ہے۔ بہرحال فوج کی واپسی کے اس فوجی اور باہمت فیصلے کی پائیداری اسی میں ہے کہ ساری بین الاقوامی طاقتیں اب شام کے خلاف تشدد کے مسئلے کو حل کریں۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں