سیاچن کا جانباز زندگی کی جنگ ہار گیا

سیاچن میں برفیلے طوفان میں دبے فوج کے لانس نائک ہنومنتھپاریسکیو آپریشن میں زندہ نکلنے کے بعدہسپتال میں مت سے لڑتے ہوئے جمعرات کی صبح آخری سانس لی۔اس طرح وہ اپنی زندگی کی جنگ ہار گئے۔ڈاکٹرو ں نے انہیں بچانے کی حتی الامکان کوشش کی لیکن وہ اس جانباز کو بچا نہیں پائے۔سیاچن میں لانس نائک ہنومنتھپا 0 ڈگری سیلسیس کے نیچے کے درجے حرارت کے دوران144 گھنٹے تک 25 فٹ برف میں پھنسے رہنے کے بعد زندہ نکلے تھے۔ یہ اپنے آپ میں کوئی معجزہ نہیں تو اور کیا ہے؟ہندوستانی فوج کے حوصلے کی سب سے بڑی مثال بن کر ہنومنتھپا کے برفیلے طوفان میں پھنسنے اور ٹھنڈی موت سے لڑنے اور باہر نکلنے کی داستان حیرت انگیز ہے۔ سیاچن میں اس طرح کے ماحول میں ڈیوٹی کرچکے فوجی حکام نے جو تجزیہ کیا ہے اس کے مطابق ہنومنتھپا کے ٹینک کے اوپر برفیلے تودوں کی بارش نے اگلوکی طرح کا ایک ہوائی پاکٹ جیسا ماحول بنادیاتھا جس سے وہ اتنے دنوں تک بچ سکے۔اگلو کیا ہے؟ دراصل وسطی آرٹک اور گرین لینڈ کے تھلے زون میں ہرمہینے سرد ہوا میں رہنے والے لوگوں کے ذریعے جس گھر کو بنایا جاتا ہے اسے اگلو کہتے ہیں۔ اگلو کی تعمیر برف سے ہی کی جاتی ہے اور وہاں رہنے والے لوگوں کو ایسکیمو کہا جاتا ہے۔ وہ بیل کی ہڈیوں اور کھالوں سے بنے اپنے گھروں کو محفوظ رکھتے ہیں۔ برف کا استعمال اس لئے کیا جاتا ہے کیونکہ ان میں دبے ہوئے ہوا کے پاکٹ اسے ایک طرح سے محفوظ بناتے ہیں۔وہاں باہر کا درجہ حرارت نفی 45 ڈگری سیلسیس تک ہو سکتا ہے لیکن اگلو کے اندر صرف جسمانی گرمی سے اندر کا درجہ حرارت -7 سے16 ڈگری سیلسیس کے درمیان ہوجاتا ہے۔ سیاچن کے جس22 ہزار فٹ پر ہندوستانی جوان پاکستان سے لگی لائن آف کنٹرول پردن رات معمور رہتے ہیں وہاں سانس لینے کے لئے آکسیجن بھی نہیں ملتی۔ فوجی ٹکڑی کی چوکیوں پر سلیپنگ بیگ میں سوتے اور آکسیجن کی کمی سے موت نہ ہوجائے اس لئے ایک جوان رات میں انہیں کئی بار جگاتارہتا ہے۔ وہاں نہانے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا اور فوجیوں کو داڑھی بنانے کیلئے بھی منع کیا جاتا ہے کیونکہ وہاں کی آب و ہوا اتنی سرد ہوجاتی ہے کہ داڑھی بنانے سے کافی خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ سیاچن میں ٹینٹ کو گرم رکھنے کے لئے ایک خاص طرح کی انگیٹھی کا استعمال کیا جاتا ہے جسے مقامی زبان میں بخاری کہتے ہیں۔ اس میں لوہے کے ایک سیلنڈر میں مٹی کا تیل ڈال کر اسے جلایا جاتا ہے اس سے وہ سلنڈر گرم ہوکر بالکل لال ہوجاتا ہے اور اس کی تپش سے ٹینٹ گرم رہتا ہے۔ لانس نائک ہنومنتھپا دہلی کے آر آرہسپتال میں زندگی اور موت کی لڑائی لڑ رہے تھے۔وہ کومہ میں چلے گئے تھے۔ دونوں پھیپھڑوں میں نمونیہ کے اثرات تھے اور جسم کے کئی حصے کام نہیں کررہے تھے اور ان کی پچھلے 24 گھنٹے سے حالت کافی نازک بنی ہوئی تھی ۔ ان کی زندگی کے لئے سارا دیش بھارت کے اس مہان ثبوت کیلئے دعا کررہا تھا۔ہمیں فخرہے کہ ایسے بہادر اور ہمت والے جوانوں پر ۔ ہنومنتھپا ہسپتال میں موت سے لڑتے ہوئے اپنی زندگی کی جنگ ہار گئے۔ہم اس جانباز کو سلام کرتے ہیں اور ہم اس دکھ کی گھڑی میں ان کے پریوار کے ساتھ سنویدنا کا اظہارکرتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟