آخر پاک نے کرلیا اعتراف کہ کشمیری دہشت گردی میں اس کا ہاتھ ہے

پاکستان نے آخر کار خود ہی قبول کرلیا ہے کہ جموں وکشمیر میں دہشت گردی کو شہ دینے میں اس کا ہی ہاتھ ہے۔ دہشت گردی کے فروغ دیش پاکستان کا اندرونی ماحول لگتا ہے اب بدل رہا ہے۔ پاکستانی ممبران پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی نے نواز شریف سرکار سے سفارش کی ہے کہ وہ کشمیر کی دہشت گرد تنظیموں کو بڑھاوا دینا بند کرے اور حملوں کیلئے ذمہ دار دہشت گردوں پر کارروائی کرے۔ پاکستان کی نیشنل اسمبلی کی خارجہ امور کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے پچھلے منگل کو کشمیر پر 4 صفحات کا ایک دستاویز سرکار کو سونپا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ کشمیر میں مسلح ممنوعہ دہشت گرد تنظیموں کو حمایت دیا بندکرے۔ یہ ممنوعہ گروپ بھارت پر دہشت گردانہ حملوں کے لئے پاکستانی سرزمین کا استعمال کرتے ہیں اور بھارت ان کے خلاف کارروائی کی مانگ کرتارہا ہے۔ حکمراں پی ایم ایل نواز کے ممبر پارلیمنٹ اویس احمد لغاری کی رہنمائی والی کمیٹی نے دنیا میں بنتے اس نظریئے پر تشویش جتائی ہے کہ کشمیر میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں پر کارروائی کیلئے پاکستان کچھ نہیں کرتا۔ پاکستانی کمیٹی نے خود پاکستان سے دہشت گردی کی حمایت بندکرنے کی نصیحت کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں۔علیحدگی پسندی کو فروغ دینے کی اپنی ہی سرکار کی پالیسی کے خلاف جو پالیسی ساز دستاویز جاری ہوا اسے پڑوسی ملک کے رویئے میں آرہی تبدیلی کے طور پر نشاندہی کرناچاہئے۔ یوں تو امریکی دباؤ میں پچھلے کچھ عرصے سے پاکستان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کررہاتھا مگر 2014ء میں دو دہشت گردانہ حملوں میں پاکستانی فوج اور سرکار کو پہلی بار دہشت گردی کے خلاف ٹھوس قدم اٹھانے کیلئے کچھ حد تک مجبور کیا۔ پاکستان خود دہشت گردی سے تباہ ہورہا ہے۔ پاک سرکار کے ذریعے شروع کئے گئے نیشنل ایکشن پلان جس کے تحت دہشت گردوں کے خلاف فوجی عدالت میں مقدموں کی تیزی سے سماعت اور دہشت گرد تنظیموں کے مالی ذرائع کو ضبط کرنے جیسے کئی مراعات تھیں اور فوج کے ذریعے کئی گئی کارروائی ’ضرب غضب‘ کا اثر پڑا ہے۔ جس کے تحت ہزاروں دہشت گردوں کا خاتمہ کیا گیا ہے۔ ممنوعہ دہشت گرد تنظیموں کی سرگرمیوں کی میڈیا کوریج پر بھی روک اور بھڑکیلی تقریروں اور ان کی کوریج پر بھی پابندی جیسے قدموں کا اثر نظر آرہا ہے۔ اگر نواز شریف سرکار لغاری کمیٹی کی نصیحتیں پوری طرح سے مان لے تو کشمیر سے دہشت گردی کے خاتمے میں مدد مل سکتی ہے۔ یہ امید عام طور پر بے معنی بھی نہیں ہے۔ پاکستان کو سرگرم تعاون یعنی حرب ہتھیار، زمین، پیسہ اورڈپلومیٹک مدد کے رکتے ہی دہشت گردی بیجان ہوجائے گی۔ پاکستان خود ایک طرح کی خانہ جنگی میں پھنس گیا ہے۔ بھارت میں دہشت گردی کی وجہ سے جتنی جانیں گئی ہیں اس سے کہیں زیادہ زندگیاں وہاں لاشوں میں تبدیلی ہوئی ہیں۔ اس خانہ جنگی سے وہاں کے شہری، انتظامیہ اور فوج تک پریشان ہے۔ آج اگر پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھی ہے تو اس کے پیچھے خود پاکستانی عوام کا دکھ درد ہے۔ بین الاقوامی پابندیاں جوں کی توں ہے۔ اب دیکھئے جس پاکستان کو پٹھانکوٹ معاملے میں پختہ ثبوت درکار ہیں ، کارروائی آگے بڑھانے کیلئے۔ 
برطانیہ میں داؤد ابراہیم کو اپنے یہاں مطلوب بتا کر اس کے پتے تک کا خلاصہ کردیا ہے جبکہ پاکستان اس کے وہاں ہونے سے انکار کرتا رہا ہے۔ تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ بھارت مخالف دہشت گردی کو اسپانسر کرنے کی پالیسی ابھی نہیں بدلی ہے۔ یہی نہیں بھارت کو نشانہ بنانے والے جیش محمد، لشکر طیبہ اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف بھرپور کارروائی نہیں ہوئی ہے بلکہ ممبئی اور پٹھانکوٹ حملوں کا تانا بانا بننے والوں کے خلاف تساہلی برتنے سے بھی بہت امید نہیں لگائی جاسکتی۔ دہائیوں سے اسلام آباد پاکستانی عوام کی توجہ دوسرے ضروری اشو سے بھٹکاتا رہا ہے۔ یہ بالکل ہوسکتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف بنتی رائے عامہ اور پٹھانکوٹ حملے کے بعد امریکہ، فرانس اور برطانیہ کے رویئے نے لغاری کمیٹی کو اپنی کشمیر پالیسی پر نظرثانی کرنے کے لئے مجبور کیا ہو لیکن اس واقعہ کو خوش آئین تبدیلی ماننا جلد بازی ہوگی۔ پھر بھی اسے ایک امید کی طرح سے دیکھنا ہی بہتر ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟