کراچی میں شیعوں کا قتل عام!

دہشت گردی کی صنعت چلا رہے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں حالات بدسے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ بم دھماکوں نسلی تشدد کیلئے خطرناک اس شہر کی سڑکوں پر دن دھاڑے قتل عام نے چونکادیا ہے۔ کراچی میں اسماعیلی شیعہ فرقے کے لوگوں کے قتل عام نے ایک طرف جہاں اقلیتوں کے خلاف تشدد کی مثال پیش کی ہے تو دوسری طرف یہ کراچی شہر کی اس بدامنی کوبھی دکھاتا ہے جس کی وجہ سے کراچی کو دنیا کے سب سے تشدد زدہ شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ شیعہ افراد کو لے جارہی بس رکوا کر بدمعاشوں نے جس طرح قریب 50 لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا اور درجن بھر کو زخمی کردیا ، وہ رونگٹے کھڑے کردینے والا واقعہ ہے۔بے رحمی کی حد یہ ہے کہ بس میں سوار عورتوں تک کو نہیں بخشا گیا اور سبھی متوفین کو سرمیں ہی گولیاں ماری گئیں۔ کٹر سنی دہشت گرد گروپ لمبے عرصے سے شیعہ اور اسلام کے دیگر اقلیتوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس سال تقریباً ہر مہینے شیعوں کے خلاف تشدد کی وارداتیں ہورہی ہیں۔ پاکستان کے اس بڑے قتل عام کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے لی ہے۔ ابھی کچھ وقت پہلے غیر ملکی سفارتکاروں کو لے جارہے ایئر فورس کے ہیلی کاپٹر کو بھی مار گرانے کا دعوی اسی تنظیم نے کیا تھا۔ اس طرح کی وارداتیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ نواز شریف کی سرکار کے ہاتھ سے حالات نکلتے جارہے ہیں۔ میاں نواز شریف کی سلطنت اسلام آباد تک ہی محدود ہوکر رہ گئی ہے اور وہ بھی پاکستانی فوج کی بدولت۔ یہ پاکستان میں سب سے بڑے شیعہ مخالف قتل عام میں سے یہ ہے۔ اس سے پہلے جنوری میں ایک شیعہ مسجد میں ہوئے دھماکے میں60 لوگ مارے گئے تھے۔ دراصل پاکستان نے اپنے آپ کو کٹر مذہبی جدوجہد کی لیباریٹری بنا لیا ہے اور یہاں جتنی طرح کے کٹر پسند گروپ ہو سکتے ہیں اتنے ہیں۔
اسی کٹر پسندی کے چلتے پہلے احمدیہ فرقے کو غیر اسلامی قرار دیا گیا اور اب ان کا قتل عام شروع ہوگیا ہے۔ اب احمدیہ اپنی عبادتگاہ کو مسجد نہیں کہہ سکتے۔ اگر ان کے پاس قرآن شریف پایا گیا یا قرآن کی آیات بھی ان کے پاس ملیں تو انہیں توہین مذہب قانون کے تحت سزا مل سکتی ہے۔ پاکستان کے نوبل انعام یافتہ اور دانشور عبدالسلام کا اپنے ملک میں کوئی نام نہیں لیتا کیونکہ وہ احمدیہ ہیں۔ آج جو پاکستان میں حالات ہیں اس میں دہشت گرد گروپ وہاں کی سرکار ، فوج، آئی ایس آئی کی آتنکی نرسری کی ہی دین ہیں۔بھارت کو کمزور کرنے افغانستان میں اپنی بالادستی بڑھانے کیلئے ان عناصر کا استعمال اسے خوب راس آتا ہے۔ پاکستان میں شیعہ فرقے کے لوگ 20 فیصدی ہیں۔ ان میں سے پاکستان کے بڑے سیاستداں صنعت کار ،افسران وغیرہ بھی ہیں۔سیاست میں بھٹو خاندان شیعہ ہے۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح بھی شیعہ تھے۔ پاکستان سرکار کی مشکل یہ ہے کہ وہ ان دہشت گرد گروپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی جن کے تار و اثر مذہبی نیتاؤں سے جڑے ہیں۔مذہبی کٹر پسندی کی جو آگ پاکستان نے اپنے یہاں سلگا رکھی ہے اسی میں شیعہ اقلیتوں کی بلی چڑھ رہی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟